امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کی ایک وفاقی اپیل عدالت کے جج بریٹ کیوانو کو سپریم کورٹ کا جج نامزد کردیا ہے۔
صدر نے جسٹس کیوانو کی نامزدگی کا اعلان پیر کی شب وائٹ ہاؤس میں ایک تقریب میں کیا۔
تریپن سالہ کیوانو گزشتہ 12 سال سے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی سرکٹ کی کورٹ آف اپیل کے جج ہیں جن کا اس عدالت میں تقرر سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے کیا تھا۔
چیف جسٹس جان رابرٹس سمیت امریکی سپریم کورٹ کے تین موجودہ جج ماضی میں واشنگٹن ڈی سی کی اس عدالت کے جج رہ چکے ہیں۔
گزشتہ 12 سال سے جج کے منصب پر فائز کیوانو اس سے قبل بھی واشنگٹن کے مقتدر حلقوں کے لیے اجنبی نہیں تھے۔
وہ 1990ء کی دہائی میں ڈیموکریٹ صدر بل کلنٹن کے خلاف تحقیقات کرنے والے آزاد وکیل کینتھ اسٹار کی ٹیم میں شامل تھے جن کی تحقیقات کے نتیجے میں ری پبلکنز کو صدر کلنٹن کے خلاف مواخذے کی تحریک لانے میں مدد ملی تھی۔
کیوانو 2000ء کے صدارتی انتخابات میں فلوریڈا میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی سے متعلق امریکی سیاست اور انتخابی تاریخ کے اہم ترین تنازع کے دوران بھی اس وقت کے ری پبلکن امیدوار جارج ڈبلیو بش کی قانونی ٹیم کا حصہ تھے۔
بعد ازاں انہوں نے صدر بش کے پہلے دورِ صدارت میں وائٹ ہاؤس کے سینئر مشیر کی ذمہ داریاں بھی انجام دی تھیں۔
پیر کو ان کی نامزدگی کا اعلان کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے بریٹ کیوانو کو ایک بہترین جج قراردیتے ہوئے کہا کہ انہیں پوری دنیا اس دور کے بہترین اور تیز ترین قانونی دماغوں میں شامل کرتی ہے۔
اگر امریکی سینیٹ نے کیوانو کی نامزدگی کی توثیق کردی تو وہ 81 سالہ جسٹس انتھونی کینیڈی کی جگہ سنبھالیں گے۔ جسٹس کینیڈی نے گزشتہ ماہ ریٹائرمنٹ لینے کا اعلان کیا تھا۔
یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ بریٹ کیوانو نے اپنے قانونی کیریئر کا آغاز جسٹس کینیڈی کے لیگل کلرک کے طور پر کیا تھا۔
صدر ٹرمپ کے 18 ماہ طویل دورِ صدارت میں یہ دوسرا موقع ہے جب انہوں نے سپریم کورٹ کے کسی جج کو نامزد کیا ہے۔
گزشتہ سال صدر ٹرمپ نے 50 سالہ نیل گورسک کو عدالتِ عظمیٰ کا جج نامزد کیا تھا جن کی سینیٹ کی جانب سے توثیق کے نتیجے میں سپریم کورٹ میں قدامت پسندوں کو حاصل اکثریت برقرار رہی تھی۔
نیل گورسک سپریم کورٹ کے جج جسٹس انتونن اسکالیا کی وفات سے خالی ہونے والی نشست پرعدالتِ عظمیٰ کے جج بنے تھے اور صرف ایک سال کے عرصے میں ہی ان کا شمار سپریم کورٹ کی حالیہ تاریخ کے سب سے زیادہ قدامت پسند ججوں میں ہوتا ہے۔
پیر کو کیوانو کی نامزدگی کا اعلان کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے امریکی سینیٹ پر زور دیا کہ وہ جلد از جلد ان کی نامزدگی کی توثیق کرے۔
لیکن بظاہر یہ مشکل نظر آتا ہے کیوں کہ سینیٹ کے ڈیموکریٹ ارکان کیوانو کی مخالفت کا عندیہ دے چکے ہیں۔
گو کہ امریکی سینیٹ میں ری پبلکنز کو ڈیموکریٹ کے 49 ارکان کے مقابلے میں 51 ارکان کی سادہ اکثریت حاصل ہے لیکن اگر کسی ایک بھی ری پبلکن رکن نے کیوانو کی مخالفت کی تو ڈیموکریٹس بآسانی ان کی نامزدگی کی راہ میں حائل ہوسکتے ہیں۔
امریکہ کی سپریم کورٹ ملک کی سب سے اعلیٰ آئینی اور فوجداری عدالت ہے جس کے فیصلے امریکی معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے آئے ہیں۔
سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد نو ہے جو تاحیات اس منصب پر فائز رہتے ہیں۔ تاہم کوئی بھی جج کسی ذاتی وجوہ کی بنیاد پر ریٹائرمنٹ لے سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کے جج کو امریکہ کا صدر نامزد کرتا ہے جب کہ اس کی نامزدگی کی توثیق سینیٹ کرتی ہے۔
اگر امریکی سینیٹ نے جسٹس کیوانو کی نامزدگی کی توثیق کردی تو سپریم کورٹ میں قدامت پسندوں ججوں کو حاصل 4-5 کی اکثریت بحال ہوجائے گی جو جسٹس کینیڈی کی ریٹائرمنٹ کی صورت میں ختم ہورہی تھی۔
ایک جائزے کے مطابق امریکی سپریم کورٹ نے حالیہ چند برسوں کے دوران تقریباً 20 فی صد مقدمات چار کے مقابلے میں پانچ ووٹوں کی اکثریت سے کیے ہیں جن میں جسٹس کینیڈی کا ووٹ اکثر فیصلہ کن ہوتا تھا۔