اپنے موبائل فون پر ذرا نظر ڈالیے ، اورپھر خود سے یہ سوال کریں کہ کیا آپ آج کل کے دور میں اس کے بغیر رہ سکتے ہیں؟
آپ کے اس سوال سے پہلے موبائل یا سیل فون بنانے والے اور اس کی سروس فراہم کرنے والے ادارے یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا ان کے صارفین کو اپنے فون پرمناسب قوت کے سگنلز مل رہے ہیں یا نہیں ؟
کیونکہ سیل فون ہر جگہ کام نہیں کرتے، اور آپ کو بھی یہ تجربہ ہوا ہوگیا کہ بعض مقامات پر یا تو سگنلز بہت کمزور ہوتے ہیں یا پھر سرے سے ہوتے ہی نہیں۔
مگر کچھ لوگ پہاڑی علاقوں یا شہری آبادیوں سے بہت دور ایسے مقامات پر رہتے ہیں جن کا دنیا کے ساتھ سیل فون کے سوا رابطے کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہوتا۔ موبائل فون کمپنیاں کی یہ کوشش کرتی ہیں کہ ان کے تمام صارفین تک سگنلز پہنچتے رہیں۔
اظفر حسین شاہ کا تعلق کراچی سے ہے ۔ وہ 1992ء میں امریکہ میں آئے تھے۔ وہاں وہ آسودہ زندگی گذار رہے تھے ، لیکن وہ چاہتے تھے کہ وہ اپنی زندگی میں کچھ نئےتجربات کا اضافہ کریں ۔ سیل فون ٹیکنالوجی پر کام کرنا ان کے لئے ایک بڑا چیلنج تھا۔
کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ جب آپ اپنے سیل فون سے کوئی کال ملاتے ہیں توآپ کا فون اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ کیسے منتقل کرتا ہے ؟
امریکی ریاست ٹیکساس میں ہزاروں پاکستانی سیل فون کی صنعت سے وابستہ ہیں کیونکہ اس ریاست میں سیل فون کمپنیوں کو کارخانے لگانے پر رعایت ملتی ہے۔ وہاں کچھ پاکستانی اظفر کی طرح بڑی سیل فون کمپنیوں ایئرریکسن یا اے ٹی اینڈ ٹی کے ساتھ منسلک ہیں یا پھر کچھ عمر الہی کی طرح ٹی موبل کے ساتھ کام کررہے ہیں۔
عمر الہی 2001ءمیں امریکہ آئے تھے اور اپنی تعلیم مکمّل کرنے کے بعد سیل فون کی صنعت سے منسلک ہو گئے ۔
جب آپ سیل فون پر کوئی نمبر ملاتے ہیں تو ریڈیو فریکونسی کے ذریعے آپ کا فون اس کا سگنل ، سیل فون کے قریبی ٹاور تک پہنچادیتا ہے۔ وہاں سے وہ دوسرے ٹاور کو منتقل ہوتا ہے اور پھر اس سے اگلے ٹاور پر، حتی ٰ کہ کال سفر کرتی ہوئی آپ کے مطلوبہ فون تک پہنچ جاتی ہے۔
اظفر کہتے ہیں کہ امریکہ میں ہر سیل فون کمپنی اسی ٹیکنالوجی پر کام کر رہی ہے۔
اگر آپ کا فون سی وی ایم ٹیکنالوجی کا ہے تو آپ کا بھیجا ہوا سگنل آپ کی سیل فون کمپنی کے مقامی نیٹ ورک تک پہنچتا ہے اور پھر وہ نیٹ ورک اسے دوسرے فون تک پہنچادیتا ہے۔
اگرچہ یہ سننے میں آسان لگتا ہے لیکن تکینکی لحاظ سے یہ خاصا مشکل کام ہے۔ یہ سارا عمل اتنی تیزی سے مکمل ہوجاتا ہے کہ ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔
عمرالہی کو اس شعبے میں ابھی زیادہ وقت نہیں ہوا مگر ٹیلی کمیونی کیشن کی صنعت سے اظفر کی وابستگی دس سال سے بھی زیادہ پرانی ہے۔
اظفر نے اس شعبے میں اپنے کیرئیر کا آغاز ایک ڈرائیور کے طور پر کیاتھا مگر سیل کمپنی میں ڈرائیو سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جو مختلف علاقوں میں سیل فونز سگنلز ٹیسٹ کرتا ہے کہ آیا وہ وہاں پہنچ رہے ہیں، وہ کمزور تو نہیں ہیں اور وہاں ان کے سگنلز کسی دوسری کمپنی کے سگنلز سے ٹکراتو نہیں رہے۔
اظفر کا کہنا ہے کہ اس کے لیے انہیں انتہائی دشوار گذار اور خطرناک علاقوں میں سفر کرنا پڑتا ہے اور گاڑی میں نصب کمپیوٹر کے ذریعے مسلسل سگنلز کو چیک کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات خطرناک راستوں کا سفر زندگی کے لیے چیلنج بھی بن جاتا ہے۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ دنیا کو ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رکھنے کے لیے کسی کو تو کام کرنا پڑتاہے۔ اور ان یہ سوچ کرخوشی ہوتی ہے کہ اس شعبے سے وابستہ افراد کی یہ کوششیں کتنے والدین کو ان کے بچوں اوردوستوں کو آپس میں ملانے اور کاروباروں کی ترقی میں مدد دے رہی ہیں۔