پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان عام انتخابات کے لیے حتمی انتخابی فہرستیں اور حلقہ بندیوں کی تفصیلات جاری کر چکا ہے البتہ حکومت ڈیجیٹل حلقہ بندیوں کی بات کررہی ہے جس کے لیے مزید وقت درکار ہوگا۔
اسلام آباد میں بدھ کو تقریب سے خطاب میں چیف الیکشن کمشنر کا کہنا ہے کہ کمیشن نے آئندہ عام انتخابات کے لیے حلقہ بندیوں کی حتمی فہرست اگست 2022 میں جاری کی تھی جب کہ ووٹرز کی حتمی فہرست اکتوبر 2022 میں جاری کی جا چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن انتخابات میں ٹیکنالوجی کے استعمال کا حامی ہے۔ البتہ ٹیکنالوجی ایسی ہونی چاہیے کہ جس پر تمام شراکت داروں کا اتفاق ہو۔ جس میں ووٹر باآسانی اپنا حقِ رائے دہی استعمال کر سکیں اور اس میں ووٹ کی رازداری ممکن بنائی جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت اب ڈیجیٹل حلقہ بندیوں کی بات کر رہی ہے۔ الیکشن کمیشن نے حکومت کو بار بار یہ باور کرایا ہے کہ ڈیجیٹل حلقہ بندیوں کے لیے الیکشن کمیشن کو چھ سے سات ماہ درکار ہوں گے۔
SEE ALSO: عمران خان کی مذاکرات کی پیش کش: حکومت دلچسپی کیوں نہیں لے رہی؟ان کے مطابق اگر ڈیجیٹل حلقہ بندیاں کی جاتی ہیں تو الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کے حوالے سے جو بڑا کام کیا ہے وہ سب ضائع ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اب تک ڈیجیٹل حلقہ بندیوں پر کام شروع ہی نہیں ہوا۔ اگر یہ ڈیجیٹل حلقہ بندیاں کی جاتی ہیں تو اس یہ کام مشکل ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن بااعتماد ہے کہ اگر مردم شماری ہو جاتی ہے اور مشترکہ مفادات کونسل اس کی منظوری دے دیتی ہے جب کہ کمیشن کو باقاعدہ آگاہ کر دیا گیا تو کمیشن نئی حلقہ بندیاں کرکے انتخابات کرانے کے لیے تیار ہوگا۔
خیال رہے کہ پاکستان میں اپوزیشن جماعت تحریکِ انصاف جلد از جلد انتخابات کرانے کا مطالبہ کر رہی ہےجب کہ حکومت آئندہ برس اکتوبر موجودہ اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے کے بعد ہی انتخابات کرانے اعلان کرچکی ہے۔
الیکشن کمیشن کی کارکردگی کاذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ 22-2021 میں الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے 17 اور صوبائی اسمبلیوں کے 34 ضمنی الیکشن کرائے ہیں۔ یہ ایک عمومی تاثر ہے کہ ضمنی الیکشن حکومتِ وقت جیت جاتی ہے۔ لیکن مجموعی طور پر اپوزیشن نے 35 جب کہ حکومت نے 16 نشستیں جیتی ہیں۔ جو انتخابات کے شفاف ہونے کا واضح ثبوت ہے۔
SEE ALSO: عمران خان کی انتخابات کی تاریخ کے لیے حکومت کو مذاکرات کی پیش کشبلدیاتی انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخابات کے لیے بالکل تیار نہیں تھیں۔ کبھی بھی قوانین تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کیوں؟
سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ آئین کے تحت الیکشن کمیشن پابند ہے کہ صوبوں کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں۔ البتہ یہ واضح نہیں تھا کہ مقررہ تاریخ گزرنے کے بعد الیکشن کمیشن کا کیا اختیار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات کرانے میں تاخیر ہورہی ہے۔
ان کے بقول ملک میں سب سے اہم بلدیاتی انتخابات ہی ہیں۔
سکندر سلطان راجہ نے ایک بار پھر دہرایا کہ کوئی بھی صوبائی حکومت کبھی بلدیاتی الیکشن کرانے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ الیکشن کمیشن کی کوشش سے خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کا عمل مارچ میں مکمل کیا گیا۔ کنٹونمنٹس میں انتخابات کرائے گئے۔ بلوچستان میں 29 اضلاع میں مئی میں انتخابات ہوئے باقی اضلاع میں سیلاب کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو سکے جو رواں ماہ ہو جائیں گے۔
انہوں ںے کہا کہ اسلام آباد میں دسمبر کے آخر میں بلدیاتی انتخابات ہوں گے جب کہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ جون میں ہو چکا ہے۔ سیلاب کی وجہ سے کراچی اور حیدر آباد ڈویژن میں الیکشن نہیں ہو سکے تھے۔ جہاں آئندہ برس 15 جنوری کو بلدیاتی انتخابات منعقد ہوں گے۔
SEE ALSO: ’باجوہ ڈاکٹرائن‘: چھ سال کے دوران کیا کچھ تبدیل ہوا؟ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کرانے پر الیکشن کمیشن کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کا ذکر کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے لیے دو بار حلقہ بندیوں کا عمل مکمل کیا گیا البتہ صوبائی حکومت نے بار بار قوانین میں تبدیلیاں کیں جس کی وجہ سے انتخابات نہیں ہو سکے تھے۔
پنجاب میں دو بار حلقہ بندیاں
پنجاب سے متعلق انہوں نے مزید کہا کہ یہاں کا معاملہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔ کیوں کہ الیکشن کمیشن کو حلقہ بندیاں کرنے میں تین سے چار ماہ کا وقت لگتا ہے لیکن جب بھی حلقہ بندیاں مکمل کرکے الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کرانے کے قریب پہنچتا تو اس وقت کی صوبائی حکومت لوکل گورنمنٹ کے قوانین کو تبدیل کر دیتی تھی جس کے سبب دوبارہ حلقہ بندیاں کرنا پڑتی تھیں۔
SEE ALSO: جلسے، احتجاج اور اداروں پر تنقید: عمران خان نے کیا کھویا کیا پایا؟ان کے بقول پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن تیسری بار حلقہ بندیاں کرنے کے اقدامات کر رہا ہے۔جس کے بعد صوبائی حکومت کو پابند کیا جائے گا کہ وہ ان انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کرے اور ضروری فنڈز بھی دیے جائیں۔
الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات آئندہ برس اپریل کے آخر میں ہو جائیں گے۔ حکومت کو بھی پابند کیا جا رہا ہے کہ انتخابات میں معاونت کرے۔ یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ اگر اب پھر بلدیاتی حکومت سے متعلق قانون تبدیل کیا گیا تو الیکشن کمیشن گزشتہ قانون کے تحت انتخابات کرادے گا۔