امریکہ میں سینٹر فار ڈیزز کنٹرول اینڈ پریوینشن کی ایک ای میل میں نشر و اشاعت کے عملے کو ہدایت کی گئی ہے کہ وائس آف امریکہ سے آنے والی درخواستوں کو نظرانداز کر دیا جائے۔ یہ ای میل نائٹ فرسٹ امینڈمنٹ انسٹی ٹیوٹ نے جاری کی ہے جو اس نے فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کے تحت حاصل کی۔
یہ ای میل مشان رچ نے 30 اپریل کو ارسال کی تھی اور اس کا سبجیکٹ رن ڈاؤن تھا۔ اس کا مقصد ایک ساتھی کارکن ریچل کو اس کی نئی ذمے داریوں سے آگاہ کرنا تھا کہ میڈیا کی جانب سے کوئی درخواست آئے تو کیا کرنا ہے۔
محکمہ زراعت کی ترجمان رچ کو اس سال کے آغاز میں سی ڈی سی بھیجا گیا تھا تاکہ وہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران نشر و اشاعت کے شعبے کو سنبھالیں۔
ای میل کا ایک حصہ محکمہ صحت یا نائب صدر کے دفتر کو میڈیا کی درخواست بھیجنے سے پہلے منظوری کے بارے میں ہے۔ اس میں درج ہے کہ گریٹا وین سسٹرن یا وائس آف امریکہ سے منسلک کسی بھی شخص کی درخواست آگے نہ بھیجی جائے۔
اس کے بعد وائٹ ہاؤس کے نیوزلیٹر میں چھپی ہوئی ایک خبر کا لنک دیا گیا ہے جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ امریکی خزانے سے چلنے والا ادارہ غیر ملکی پراپیگنڈے کو فروغ دے رہا ہے۔ اس دستاویز میں جن لوگوں کے نام ہیں، ان میں سی ڈی سی کے پبلک افئیرز کے قائم مقام ڈائریکٹر اور سی ڈی سی کے پبلک افئیرز کے افسر شامل ہیں۔
وائس آف امریکہ نے اس پر سی ڈی سی کا ردعمل جاننا چاہا تو جواب دیا گیا کہ ایک ترجمان رابطہ کرے گا۔ اس خبر کی اشاعت تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا تھا۔
سینئر نیوز اینکر اور وکیل وین سسٹرن وائس آف امریکہ پر ہفتہ وار نیوز شو پلگڈ ان کی میزبانی کرتی ہیں۔ وہ امریکی نشریاتی ادارے گیری ٹیلی وژن پر بھی ایک ہفتہ وار سیاسی پروگرام کی میزبان ہیں۔
وین سسٹرن نے کہا کہ جس بات نے انھیں ششدر کر دیا وہ یہ ہے کہ ان کا اور وائس آف امریکہ کا نام لیا گیا ہے جب کہ سی ڈی سی یا وائٹ ہاؤس یا کسی اور نے کبھی نہیں کہا کہ کرونا وائرس پر یا کسی اور بارے میں میری رپورٹنگ غیر منصفانہ یا غلط ہے۔ کسی شخص پر یوں سیاہی پھینکا بداخلاقی ہے۔
وائس آف امریکہ کی ڈائریکٹر امینڈا بینیٹ کا کہنا ہے کہ سی ڈی سی کی اندرونی دستاویزات سے ان کے ادارے کو دکھ پہنچا ہے۔ انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ وفاق سے فنڈنگ حاصل کرنے والا آزاد میڈیا ادارہ وائس آف امریکہ الزامات کو سختی سے مسترد کرتا ہے اور سی ڈی سی سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ فوری طور پر ان ہدایات کو واپس لے۔
بیان میں کہا گیا کہ ایسوسی ایٹڈ پریس کی کرونا وائرس سے متعلق ایک خبر کو وائس آف امریکہ کے شئیر کرنے پر وائٹ ہاؤس نے ایک رائے قائم کی۔ اس رائے کی بنیاد پر کسی سرکاری ادارے کے شعبہ نشر و اشاعت کا گریٹا وین سسٹرن یا وائس آف امریکہ کے دوسرے صحافیوں کی جانب سے انٹرویو کی پیشگی درخواستوں کو یکسر مسترد کرنا انتہائی تشویش کی بات ہے۔
وائس آف امریکہ نے پراپیگنڈے کے الزامات پر 10 اپریل کو پالیسی بیان جاری کیا تھا۔
وین سسٹرن نے مبینہ بلیک لسٹنگ پر کہا کہ میں نہیں جانتی کہ اس بات کا عیاں ہو جانا غیر معمولی ہے یا نہیں۔ کسی انتظامیہ نے، چاہے وہ براک اوباما کی ہو یا جارج ڈبلیو بش کی یا بل کلنٹن کی، کسی نے میڈیا کو پسند نہیں کیا۔ میں اس عرصے میں میڈیا کے ساتھ منسلک رہ ہوں اور ایسا پہلے کبھی میرے ساتھ نہیں ہوا۔
امینڈا بینیٹ نے کہا کہ یہ طے کرنا دشوار ہے کہ سی ڈی سی کی پابندی سے وبا کی کوریج متاثر ہوئی یا نہیں۔ سی ڈی سی کی ای میل میں بیان کردہ کوششوں کا نتیجہ ہماری صحافت پر ویسے ہی پڑ سکتا ہے جیسے اثرات وائس آف امریکہ پر چین اور روس جیسے ملکوں میں کام کرنے سے ظاہر ہوتے ہیں، جہاں آزاد پریس نہیں ہے۔