وسطی افریقہ: قصبے پر حملہ، امدادی کارروائیاں بند

’ڈاکٹرز وداؤٹ بارڈرز‘ نے کہا ہے کہ اُس نے بگولیا سے اپنا کلیدی عملہ ہٹا دیا ہے اور اب یہ فیصلہ کیا جائے گا آیا وہاں اور جمہوریہ کے دیگر حصوں میں امدادی کام جاری رکھا جا سکتا ہے
’ڈاکٹرز وداؤٹ بارڈرز‘ نے کہا ہے کہ اُس نے جمہوریہٴوسطی افریقہ کے اُس قصبے میں اپنا تمام امدادی کام بند کردیا ہے، جہاں مسلح افراد نے اُن کے اسپتال پر حملہ کیا تھا۔

امدادی گروپ نے، جسے ’ایم ایس ایف‘ کے فرانسسی نام سے جانا جاتا ہے، ایک بیان میں کہا ہے کہ ہفتے کے روز بگولیا کے شمالی قصبے میں ہونے والے واقعے میں 16 شہری، جن میں اُس کے تین اہل کار بھی شامل تھے، ہلاک ہوئے۔ اِس سے قبل آنے والی اطلاعات میں ہلاکتوں کی تعداد 22 بتائی گئی تھی۔

’ایم ایس ایف‘ نے کہا ہے کہ جب امدادی گروپ کے اہل کار مقامی برادری کے راہنماؤں سے ملاقات کر رہے تھے، ’سلییکا‘ کے سابق باغیوں نے اسپتال کے میدان کا محاصرہ کر رکھا تھا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ بندوق کی نوک پر، کچھ مسلح افراد نے ’ایم ایس ایف‘ کے دفتر میں لوٹ مار کی، جب کہ دیگر لوگوں نے اُس بینچ پر فائر کھول دیا جہاں یہ اجلاس جاری تھا، جس کے باعث کچھ شرکا ہلاک و زخمی ہوئے۔


امدادی گروپ نے کہا ہے کہ اُس نے بگولیا سے اپنا کلیدی عملہ ہٹا دیا ہے اور اب یہ فیصلہ کیا جائے گا آیا وہاں اور جمہوریہ کے دیگر حصوں میں امدادی کام جاری رکھا جاسکتا ہے۔

ایک سال سے اس ملک میں تشدد کی کارروائیاں عام ہیں، جن کی زیادہ تر بنیاد فرقہ وارانہ نوعیت کی ہے۔

اتوار کے روز، بین الاقوامی امن کاروں نے جمہوریہ وسط افریقہ کے داراحکومت بانگئی سے آخری مسلمان آبادی کے انخلا کا کام مکمل کر لیا۔ کئی ماہ سے اِن 1300 افراد کو زیادہ تر مسیحی ’اینٹی بلاکا‘ شدت پسندوں نے گھیراؤ کر رکھا تھا۔

بعدازاں، عیسیائیوں نے سابقہ مسلمان مضافات میں واقع گھروں اور ایک مسجد میں لوٹ مار کی۔

’اینٹی بلاکا‘ حملوں سے بچنے کے لیے جمہوریہ وسطی افریقہ کے وہ علاقے جہاں عیسائی آبادی کی اکثریت ہے، مسلمان وہاں سے بھاگ رہے ہیں۔

یہ ملیشیائیں ’سیلیکا‘ کی طرف سے ہلاکتوں اور لوٹ مار کے جواب میں تشکیل پائیں، جب سیلیکا نے مارچ 2013ء میں صدر کا تختہ الٹا۔ بانگئی سے سیلیکا کو اِسی سال کے اوائل میں خالی کرا لیا گیا تھا۔

سنہ 2000 سے فرانسسی فوجوں اور 5000 افریقی امن کاروں نے تشدد کی کارروائیاں رکوانے کی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں، لیکن اُنھیں بہت ہی کم کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مشکلات سے دوچار اس ملک کے لیے حالیہ دنوں کے دوران امن کاروں کی تعداد بڑھانے کی سفارش کی ہے۔