کریمہ بلوچ کی موت کسی 'مجرمانہ فعل' کا نتیجہ نہیں: کینیڈین پولیس

کینیڈین پولیس نے دو روز قبل ٹورنٹو سے بلوچ سیاسی کارکن کریمہ بلوچ کی لاش برآمد ہونے کے معاملے میں کسی جرم کے ارتکاب کا امکان رد کر دیا ہے تاہم تاحال یہ معمہ حل نہیں ہو سکا کہ اُن کی ہلاکت کیسے ہوئی۔

ٹورنٹو پولیس کی جانب سے بدھ کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ تحقیقات کے بعد پولیس افسران نے تعین کیا ہے کہ اس معاملے میں کسی جرم کا ارتکاب نہیں ہوا اور نہ ہی کسی اور گڑبڑ کا شک ہے۔

پولیس کے مطابق ابتدائی تحقیقات کے نتائج سے کریمہ بلوچ کے اہلِ خانہ کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔

پولیس حکام کا اس سے قبل ایک بیان میں کہنا تھا کہ وہ اس معاملے کی تہہ تک جائیں گے کیوں کہ وہ میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی اس معاملے میں دلچسپی سے آگاہ ہیں۔


پاکستان کے صوبے بلوچستان کے علاقے تمپ سے تعلق رکھنے والی کریمہ بلوچ 2015 میں کینیڈا آئی تھیں۔

اُن کے اہلِ خانہ کے مطابق لاپتا افراد، بلوچ خواتین اور طلبہ کے حقوق کے لیے اُن کے لیے پاکستان میں رہ کر کام کرنا مشکل تھا اور اہلِ خانہ اور دوستوں کے اصرار پر وہ کینیڈا میں رہ کر کام کر رہی تھیں۔

بلوچ علیحدگی پسندوں سے تعلقات کے الزام میں اُن کے خلاف پاکستان میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ بھی درج ہے۔

اہلِ خانہ کے مطابق کریمہ کینیڈا میں رہ کر بلوچستان میں جاری سیاسی کارکنوں کی گمشدگیوں کے خلاف مظاہرے کرتی تھیں اور اس حوالے سے دیگر آگاہی پروگرام کا اہتمام بھی کرتی تھیں۔ ان کے بقول اس کے ساتھ انہوں نے کینیڈا میں اپنی تعلیم بھی جاری رکھی ہوئی تھی۔

کریمہ کے شوہر ہمال حیدر نے میڈیا کو بتایا کہ وہ اتوار کو ٹورنٹو کے ایک پارک میں واک کے لیے گئیں اور پھر واپس نہیں آئیں۔

ہمال نے برطانوی اخبار 'گارڈین' کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ "وہ یہ یقین نہیں کر سکتے کہ یہ خود کشی ہے۔ وہ ایک مضبوط خاتون تھیں اور وہ خوشگوار موڈ میں گھر سے نکلیں تھیں۔"

کریمہ کی پراسرار ہلاکت پر کوئٹہ میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔

حیدر کا کہنا تھا وہ کریمہ کی ہلاکت کے واقعے میں گڑبڑ کے امکان کو رد نہیں کر سکتے۔

بقول ان کے اُنہیں مسلسل دھمکیاں مل رہی تھیں اور جب 2015 میں اُنہوں نے اپنا گھر چھوڑا تو اس سے قبل دو بار اُن کے گھر پر چھاپہ مارا گیا تھا۔

پاکستان کے سیکیورٹی اداروں پر بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جبری گمشدگیوں کے الزامات لگتے رہتے ہیں۔

البتہ پاکستانی فوج کا یہ مؤقف رہا ہے کہ ہمسایہ ملک بھارت بلوچ علیحدگی پسندوں کی فنڈنگ کر کے اُنہیں پاکستان کے خلاف اُکسانے میں سرگرم ہے۔ بھارت ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔

کریمہ بلوچ کی ہلاکت پر مظاہرے

کراچی سے وی او اے کے نمائندے محمد ثاقب نے بتایا ہے کہ بلوچ قوم پرست اور پاکستان میں کالعدم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی رہنما کریمہ بلوچ کے مبینہ قتل کی تحقیقات کرانے کے لئے بلوچ یکجہتی فورم کے زیر اہتمام کراچی میں بڑی ریلی نکالی گئی۔

ریلی میں خواتین، مرد، اور بچوں کے علاوہ طلبہ، سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے بڑی تعدا د میں شرکت کی۔ اس موقع پر مظاہرین نے کریمہ بلوچ کی ہلاکت کی شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لئے سرگرم عبدالقدیر بلوچ نے کہا کہ کریمہ بلوچ نے بلوچستان کے حقوق کے لئے دلیرانہ خدمات انجام دیں۔

کراچی میں کریمہ بلوچ کی ہلاکت پر مظاہرہ۔ 24 دسمبر 2020

ان کا کہنا تھا کہ اگر اس مبینہ قتل کے، بقول ان کے اصل محرکات سامنے نہیں لائے گئے تو وہ اس معاملے پر عالمی عدالت انصاف سے رجوع کریں گے۔

اس موقع پر مظاہرین نے کریمہ بلوچ کی بلوچستان کے لاپتا افراد اور سیاسی حقوق کے لئے آواز اٹھانے کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ کریمہ بلوچ نے اپنے قریب ترین عزیز و اقارب کے لاپتا ہونے پر آواز بلند کی مگر انہیں مختلف مقدمات میں الجھایا گیا، لیکن اس کے باوجود انہوں نے بہادری سے حالات کا مقابلہ کیا۔

مظاہرین احتجاج ریکارڈ کرانے کے بعد پُر امن طور پر منتشر ہو گئے۔