خیبرپختونخوا اسمبلی بھی تحلیل: کیا پی ٹی آئی صوبے میں اپنی برتری برقرار رکھ سکے گی؟

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی اسمبلی کے بعد خیبرپختونخوا اسمبلی بھی تحلیل کر دی گئی ہے جس کے بعد دونوں صوبوں میں نگران حکومتوں کے قیام کا عمل شروع ہو گیا ہے۔

خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریکِ انصاف کو دو تہائی اکثریت حاصل تھی، ایسے میں سیاسی حلقے یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ کیا پی ٹی آئی صوبے میں اپنی برتری برقرار رکھ سکے گی یا اسے ٹف ٹائم ملے گا؟

خیبرپختونخوا اسمبلی کی تحلیل کی خاص بات یہ ہے کہ گورنر پنجاب کے برعکس خیبرپختونخوا کے گورنر حاجی غلام علی نے اسمبلی کی تحلیل کی سمری پر دستخط کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کی۔ اسی دوران قومی اسمبلی کے اسپیکر نے پی ٹی آئی کے 34 اراکین کے استعفے بھی منظور کر لیے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک جانب جہاں پی ٹی آئی سیاسی چالیں چل رہی ہے تو اب حکمراں اتحاد نے بھی پی ٹی آئی کو سرپرائز دینا شروع کر دیے ہیں۔

کیا نگران حکومت پر جلد اتفاقِ رائے ہو جائے گا؟

پشاور ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) شیر محمد خان کہتے ہیں کہ اسمبلی تحلیل کرنا وزیرِ اعلٰی کا صوابدید ہے اور آئین کے تحت 90 روز کے اندر الیکشن ہو سکتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بہتر تو یہی ہے کہ پورے ملک میں ایک ہی روز تمام اسمبلیوں کے انتخابات ہوں۔

اُن کا کہنا تھا کہ پنجاب کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی نگران حکومت کے قیام کے حوالے سے اختلافات سامنے آ سکتے ہیں۔

سینئر تجزیہ کار اور صحافی عرفان خان کہتے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں نگران حکومت کے قیام پر سبک دوش ہونے والے وزیرِ اعلٰی اور قائدِ حزبِ اختلاف اکرم دُرانی کے درمیان نام پر اتفاق کے امکانات کم ہوں گے۔ لہذٰا یہاں بھی معاملہ پارلیمانی کمیٹی اور الیکشن کمیشن تک جانے کے امکانات ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ معاشی صورتِ حال اور خیبرپختونخوا میں امن و امان کی صورتِ حال 90 روز کے اندر الیکشن کے انعقاد میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

کیا پی ٹی آئی 2018 والی تاریخ دہرا سکے گی؟

سینئر تجزیہ کار شاہد حمید کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت کی یہ کوشش ہو گی کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کرا دیے جائیں، تاکہ تحریکِ انصاف کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکے۔

اُن کے بقول حکمراں اتحاد کے پاس وفاقی حکومت ہونے کے باعث ریاستی اداروں پر کنٹرول بھی ہو گا اور وہ تحریکِ انصاف کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔



عرفان خان کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے لیے 2018 کی طرح دو تہائی اکثریت کا حصول آسان نہیں ہو گا۔ لیکن وفاقی حکومت کی معاشی کارکردگی کو جواز بنا کر پی ٹی آئی خیبرپختونخوا میں اپنی انتخابی مہم منظم کر سکتی ہے۔

تجزیہ کار شاہد حمید کہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف کو جمعیت علمائے اسلام (ف) اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) بھی انتخابات کے دوران ٹف ٹائم دے سکتی ہیں۔

وزیرِ اعلٰی خیبرپختونخوا نے بدھ کو ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ تحریکِ انصاف نے 2018 میں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر صوبے میں دوبارہ حکومت حاصل کی تھی اور اب یہاں ہونے والے الیکشن میں بھی ایسا ہی ہو گا۔