|
کوئٹہ -- محمد حفیظ نے ایک سال قبل گھر کا کچھ سامان فروخت کیا اور ادھار مانگ کر کوئٹہ کے علاقے سرکی روڈ پر ایک منی پیٹرول پمپ بنایا جہاں وہ سرحدی علاقوں سے کوئٹہ آنے والا پیٹرول اور ڈیزل فروخت کرتے تھے۔
حال ہی میں انتظامیہ کی کارروائی کے دوران ان کی دکان کو سیل کردیا گیا ہے۔ محمد حفیظ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس روزگار کا اور کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔
محمد حفیظ کے بقول "حکومت ایرانی سرحد پر تو پیٹرول کی آمدورفت پر پابندی عائد نہیں کرتی مگر جب ہم یہی پیٹرول کوئٹہ میں فروخت کرتے ہیں تو ہمارے خلاف کارروائی ہوتی ہے حالاں کہ یہی پیٹرول کراچی سمیت اندورن سندھ اور صوبہ پنجاب تک فروخت کے لیے لے جایا جاتا ہے۔"
یہ کریک ڈاؤن ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب حال ہی میں پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے انٹیلی جینس حکام نے ایرانی پیٹرول کی اسمگلنگ میں ملوث گروہ کا کھوج لگانے کا دعویٰ کیا ہے جس کی وجہ سے قومی خزانے کو سالانہ 227 ارب روپے کا نقصان ہو رہا تھا۔
اس رپورٹ پر وفاقی حکومت نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے جس کے بعد ایران سے پیٹرول کی اسمگلنگ پر پابندی لگانے کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔
ذرائع ابلاغ میں رپورٹ ہونے والے ان انکشافات میں کہا گیا ہے کہ انٹیلی جینس ایجنسیوں نے بلوچستان میں 738 پیٹرول فلنگ اسٹیشنز، اسمگلروں اور اہلکاروں پر مشتمل ایک گروہ کو بے نقاب کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق صوبے میں تقریباً 100 کرپٹ افسران اور 105 ایرانی تیل کے اسمگلروں کی نشان دہی کی گئی ہے اور ان کے نام اور نمبرز بھی حکام کو فراہم کیے گئے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق حالیہ عرصے میں ایرانی پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ دگنی ہو گئی ہے۔
اس سے قبل نگراں حکومت کی جانب سے وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن کے باعث یہ کاروبار نصف ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
انٹیلی جینس ایجنسیوں کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق دہشت گردی سے متاثرہ جنوبی بلوچستان میں روزگار کے مواقع کم ہونے کی وجہ سے یہاں ایرانی تیل کی خرید و فروخت زیادہ ہوتی ہے۔
سندھ اور پنجاب میں سپلائی
کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی میں ایرانی پیڑولیم کی مرکزی منڈی میں ایک ڈیلر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ماضی کے مقابلے میں موجودہ حکومت کے دور میں ایرانی پیٹرول کی سپلائی میں اضافہ ہوا ہے۔
ڈیلر کے مطابق ایرانی پیٹرول کی ترسیل میں اضافے کی وجہ سندھ اور پنجاب کو سپلائی میں اضافہ بتایا جاتا ہے۔
خفیہ اداروں کی رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ فروری 2024 میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد سے ایرانی تیل کی اسمگلنگ میں ایک بار پھر تیزی آئی ہے۔
ایرانی پیٹرول لانے والے ایک ڈرائیور نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ تربت سے ایرانی پیٹرول کوئٹہ لاتے ہیں راستے میں ایک درجن سے زائد چیک پوسٹوں پر انہیں روکا جاتا ہے۔
انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ ان چیک پوسٹوں پر بڑی گاڑیوں سے فی گاڑی پانچ ہزار جب کہ چھوٹی گاڑیوں سے فی گاڑی دو ہزار روپے وصول کیے جاتے ہیں۔
ڈرائیور کے مطابق تربت سے کوئٹہ تک سفر میں عام طور پر آٹھ سے 10 گھنٹے لگتے ہیں مگر انہیں ہر چیک پوسٹ پر گھنٹوں روکا جاتا ہے جس کی وجہ سے کوئٹہ پہنچنے تک دو سے تین دن لگ جاتے ہیں۔
ڈرائیور کا کہنا ہے کہ اس کاروبار میں جتنی بچت ہوتی ہے اس کا بڑا حصہ چیک پوسٹوں پر ہم سے لے لیا جاتا ہے۔
بلوچستان میں ایرانی پیٹرول کے کاروبار سے وابستہ تنظیم "زمباد ایسوسی ایشن" کے ایک عہدے دار جان بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی پیٹرول کی ترسیل اسمگلنگ میں نہیں آتی ہے اگر یہ اسمگلنگ ہوتی تو ایف سی اور ضلعی انتظامیہ ہماری گاڑیوں کو کس حیثیت میں رجسٹرڈ کرتی ہے۔
داد جان نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ حکومت نے ہماری پانچ ہزار تیل بردار گاڑیوں اور گوادر میں 10 ہزار کشتیوں کو رجسٹرڈ کر رکھا ہے۔
'اگر پابندی لگی تو احتجاج ہو گا'
انہوں نے کہا کہ "ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر میں سرحدی علاقوں کے لوگ دوسرے ملکوں کے ساتھ آزادانہ کاوربار کرتے ہیں اور ان کی آمدورفت پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں ہوتی۔"
داد جان نے بتایا کہ اگر وفاقی حکومت نے ایرانی پیٹرول کے کاروبار پر پابندی عائد کی تو وہ اس کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کا آغاز کریں گے۔
ان کے بقول ایرانی پیٹرول کے کاروبار سے براہ راست 90 فی صد افراد کا ذریعہ معاش وابستہ ہے۔ اگر اس کاروبار میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی گئی تو اس سے مکران ڈویژن سمیت صوبے بھر میں بے امنی کے واقعات میں اضافہ ہو گا۔
ان کے مطابق پاکستان ایران سرحد پر بارڈر کراسنگ پوائنٹس پر روزانہ 600 گاڑیوں کو تیل لانے کی اجازت دی جاتی ہے۔
کوئٹہ کی ضلعی انتظامیہ کے ایک اعلٰی افسر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انتظامیہ نے حال ہی میں غیر قانونی طور پر چلنے والی منی پیٹرول پمپس پر چھاپوں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔
انتظامیہ کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق کوئٹہ میں قانونی طور لائسنس یافتہ پیٹرول فروخت کرنے والے پمپس کی کل تعداد 57 ہے جب کہ غیر قانونی ایرانی اسمگل شدہ پیٹرول فروخت کرنے والے پمپس کی تعداد 464 ہے۔
انتظامیہ کے مطابق حالیہ کریک ڈاؤن میں 464 منی پیٹرول پمپس میں سے 131 کو سیل کردیا گیا ہے جب کہ مزید بھی کارروائی جاری ہے۔
'ایرانی پیٹرول کی تجارت بلوچ عوام کے روزگار کا بڑا ذریعہ ہے'
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ ایران سے پیڑول لانے اور یہاں بلوچستان میں فروخت کرنے کا بنیادی مقصد بلوچستان کے غریب اور بے روزگار لوگوں کو روزگار کے ذرائع فراہم کرنا تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ایرانی پیٹرول کی خرید و فروخت بلوچستان کے عوام کے لیے روزگار کا بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
صوبے کے دیہی علاقوں سے لے کر شہری علاقوں تک لوگ یہ کاروبار کرتے نظر آتے ہیں اس کے علاوہ ایرانی پیٹرولیم مصنوعات بلوچستان میں زرعی مقاصد کے ساتھ چھوٹے پیمانے کے لوکل کاروبار کا سب سے بڑا سہارا سمجھا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایرانی پیٹرول بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں میں عوام کو روزگار کے ذرائع کے طور پر استعمال کی اجازت کا سابق حکومتوں کا فیصلہ درست تھا۔
اُن کے بقول اس سے عام آدمی کا روزگار وابستہ ہوتا ہے مگر بد قسمتی سے سارے سرمایہ دار اور بیورو کریسی اس منافع بخش کاروبار میں شامل ہونا شروع ہو گئے ہیں اور زیادہ فائدہ ان لوگوں کو ہونے لگا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے قبل بلوچستان میں پاکستان آرمی کے اعلیٰ حکام نے پیٹرول کی نقل و حمل پر روک تھام کے اختیارات ایف سی فرنٹیئر کور سے لے کر لوکل انتظامیہ کے حوالے کیے تھے۔
اُن کے بقول جب یہ اختیارات لوکل انتظامیہ کے حوالے کیے گئے تو اس کاروبار میں بڑے با اثر لوگوں اور سیاست دان بھی شامل ہو گئے۔
وہ کہتے ہیں کہ اب جب خفیہ اداروں نے اس سلسلے میں اپنی رپورٹ پیش کی ہے جس میں ایسے لوگوں کے نام بھی بتائیں گئے ہیں تو اب ان لوگوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ ایرانی پیٹرول کا کاروبار بلوچستان کی حد تک ہونا چاہیے کیوں کہ جب بڑے لوگ اس کاروبار میں شامل ہوئے تو یہ پیٹرول ملک بھر میں سپلائی ہونے لگا۔
اُن کے بقول وفاق اور صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے کہ پیٹرول کو بلوچستان سے باہر جانے سے روکا جائے۔
شہزادہ ذوالفقار نے کہا کہ اگر وفاقی حکومت کی جانب سے بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں ایرانی پیڑولیم مصنوعات کی آمدورفت پر پابندی عائد کی جاتی ہے تو اس کا نقصان مقامی افراد سے زیادہ خود اسلام آباد کو ہو گا۔
اُن کے بقول غریب عوام سے اگر ان کا روزگار چھین لیا جائے گا تو یہ لوگ یا تو منشیات کے عادی ہو جائیں گے یا چوری چکاری کریں گے یا پھر مسلح تنظمیوں میں شامل ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ ایرانی پیٹرول کی سپلائی پر فی لیٹر ٹیکس عائد کرے اس سے کرپشن کا بھی خاتمہ اور قومی خزانے کو فائدہ ہو گا۔
دوسری جانب بلوچستان میں ایرانی پیٹرول کی بڑی پیمانے پر اسمگلنگ اور اس سے قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصانات اور اس میں ملوث لوگوں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کے حوالے سے بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند سے جب وائس آف امریکہ نے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں تاحال وفاق کی جانب سے ایسی کوئی رپورٹ موصول نہیں ہوئی ہے۔
اُن کے بقول یہ خبر صرف سوشل میڈیا پر ہے اس لیے اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔
ادھر پاکستان کی وزارتِ توانائی نے وزارتِ داخلہ اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو ایک خط لکھا ہے جس میں وزارتِ داخلہ سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ ایرانی پیٹرولیم مصنوعات کی ملک میں بے دریغ اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کریں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ایرانی پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ سے پہلے ہی ایک ریفائنری کا مجبوراً ایک یونٹ بند کرنا پڑا ہے اور اربوں ڈالر کے ریفائنری کے اپ گریڈ معاہدوں کو بھی خطرہ ہے اور ایرانی اسمگل شدہ پیٹرولیم نے ریفائنری سیکٹر اور پوری آئل سپلائی چین کو شدید متاثر کیا ہے۔