پاکستان کے صوبہ خبیر پختونخوا کے ضلع جنوبی وزیرستان میں ایک غیر سرکاری مقامی تنظیم نے بچوں اور بالخصوص لڑکیوں کو اسکولوں میں داخل کرنے کی ایک مہم شروع کی ہے ۔
جنوبی وزیرستان کے مرکزی انتظامی قصبے وانا اور تحصیل بیرمل میں یہ مہم 2007 اور 2008 میں قائم ہونے والی تنظیم وانا ویلفیرز ایسوسی ایشن نے شروع کی ہے۔
یہ تنظیم جنوبی وزیرستان کے سب سے بڑے قبیلے احمدزئی وزیر سے تعلق رکھنے والے ان تعلیم یافتہ افراد نے قائم کی ہے جو اب ملک کے مختلف سرکاری اور نجی اداروں میں اعلی عہدوں پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
سینئر صحافی اور وانا ویلفیئر ایسوسی ایشن کے بانی رکن دلاور وزیر نے بتایا کہ 2017 کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جنوبی وزیرستان کی آبادی چھ لاکھ 74 ہزارسے زائد ہے جب کہ یہ قبائلی ضلع 11 ہزار 585 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔
خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع وزیر ستان کو ڈیڑھ سال قبل لوئر اور اپر جنوبی وزیرستان مین تقسیم کیا گیا تھا۔ اگرچہ مقامی آبادی لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کو تعلیم دینے کے حق میں ہیں لیکن امن وامان سے متعلق مشکلات اور عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کی وجہ سے یہاں تعلیم و تدریس کا سسلسلہ بھی متاثر ہوا ہے۔
لیکن اب مقامی تنظیموں اور مختلف سیاسی جماعتوں کی سیاسی قیادت نے لوئر وزیرستان کے ڈویژن وانا میں بچوں کو اسکول میں داخل کرنے کے لیے ماس انرولمنٹ کمپین چلائی ہے۔
اس سلسلے میں گورنمنٹ ہائی اسکول وانا سے لے کر وانا بائی پاس تک ایک واک کا اہتمام کیا گیا جس میں بچوں اور بچیوں کے علاوہ محکمۂ تعلیم اور مقامی انتظامیہ کے حکام، وانا ویلفیئرز ایسوسی ایشن کے صدر رحمت اللہ وزیر سمیت عمائدین اور مختلف مکاتبِ فکر کے افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
Your browser doesn’t support HTML5
جنوبی وزیرستان کے اسکولوں کی صورتِ حال
جنوبی وزیرستان کے ضلعی ایجوکیشن افسر امیر محمد خان نے رابطہ کرنے پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ضلع میں 484 اسکول ہیں جن میں پرائمری اسکولوں کی تعداد 315 ہے۔ ان اسکولوں میں زیرِ تعلیم طلبہ کی تعداد 8311 ہے۔
جنوبی وزیرستان کے صحافی اوردین محسود کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے باعث پچھلے دو دہائیوں سے پورے علاقے میں درس و تدریس کا سلسلہ متاثر ہوا ہے ۔ زیادہ تر نقل مکانی کرنے والے قبائلی خاندانی اب تک اپنے آبائی علاقوں میں واپس نہیں آئے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ سرکاری اسکولوں کی تعلیم کا معیار بھی روز بروز گھٹتا جا رہا ہے اور اسی وجہ سے والدین بچوں کو نجی اسکولوں میں تعلیم دلوانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
مقامی صحافی اور وانا ویلفیئر ایسوسی ایشن کے بانی رکن دلاور وزیر نے بتایا کہ اگر ایک طرف امن و امان کی ابتر صورتِ حال کے باعث والدین بچوں کو اسکولوں میں داخل نہیں کراتے تو دوسری طرف اس قبائلی ضلع کے ہزاروں خاندان 2009 کے نقل مکانی کے بعد اب دیگر علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔
جنوبی وزیرستان کے انتظامیہ کے افسران کا کہنا ہے کہ ابھی اسکولوں میں اندراج کا سلسلہ جاری ہے۔اسی لیے تازہ ترین اعداد و شمار مرتب نہیں کیے جاسکے ہیں۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں نومبر 2022 میں ایک سوال کے جواب میں حکام نے بتایا تھا کہ خیبر پختونخوا میں پانچ سال سے 16 سال عمر کے 47 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں ۔قبائلی اضلاع کے اسکولوں سے باہر بچوں کی زیادہ تعداد کی سب سے زیادہ تعداد شمالی وزیرستان سے تعلق رکھتی ہے۔