ہفتے کے روز رہا کیے جانے والے برما کے حز ب اختلاف کے ایک راہنما تن او نے اتوار کے روز کہا ہے کہ انہیں اپنی رہائی کی اس وقت تک خوشی نہیں ہوگی جب تک ان کے ساتھی بھی فوجی حکومت کی قید سے رہا نہیں ہوتے۔
حزب اختلاف کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے وائس چیئر مین مسٹر تن او نے کہا کہ وہ حزب اختلاف کے ساتھ مل کر برما میں جمہوریت کے لیے اپنی سیاسی سرگرمیاں دوبارہ شروع کریں گے۔ 83 سالہ ریٹائررڈ جنرل اور سابق وزیر دفاع کو سات سال کی قید کے بعد ہفتے کے روز رہا کیا گیاتھا۔
تن او نے ہفتے کے روز وائس آف امریکہ کی برمی سروس کو بتایا کہ ان کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی اس سال ہونے والے انتخابات میں اس وقت تک حصہ نہیں لے گی جب تک پارٹی کی راہنما آنگ ساں سوچی کو الیکشن میں حصہ لینے کے لیےرہا نہیں کیا جاتا۔ آنگ ساں سوچی اپنے گھر پر نظر بند ہیں اور ان کی نظر بندی کی مدت نومبر میں ختم ہورہی ہے۔
برما کی فوجی حکومت اس سال عام انتخابات کرانے کا اعلان کرچکی ہے لیکن اس نے اس سلسلے میں کسی تاریخ کا تعین نہیں کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے مسٹر تن او کی رہائی کا خیرمقدم کیا ہے۔ انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا اس کے نتیجے میں برما میں سیاسی عمل کوزیادہ قابل بھروسہ اور جامع بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔
سیکرٹری جنرل نے برما کی فوجی حکومت پر آنگ ساں سوچی سمیت دوسرے تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کی بھی اپیل کی۔
اقوام متحدہ کے برما کے لیے انسانی حقوق کے سربراہ ٹامس اوجی کوئن تانا پیر سے برما کا ایک پانچ روزہ دورہ شروع کررہے ہیں۔
توقع ہے کہ وہ حزب اختلاف اور نسلی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دینے کے سلسلے میں فوجی حکومت پر زور دیں گے۔