پیر کے روز میانمار میں ایک جج نے فیصلہ دیا کہ خبر رساں ادارے رائٹر کے دو صحافیوں کو روہنگیا کے بحران پر رپورٹنگ کر کے مبینہ طور پر راز داری سے متعلق ملک کے قوانین توڑنے پر مقدمے کا سامنا کرنا ہو گا۔
32 سالہ وا لون اور28سالہ کیاؤ سو او دسمبر میں اپنی گرفتاری کے بعد سے حراست میں ہیں اور ان کی بحران کی شکار ریاست راکھین میں، جہاں میانمر کے مسلم اقلتیی مسلمان روہنگیا رہتے ہیں، ایک فوجی پکڑ دھکڑ سے منسلک کی افشا ہو جانے والی حساس نوعیت کی معلومات اپنی ملکیت میں رکھنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
یہ فیصلہ کئی ماہ کی ابتدائی سماعتوں کے بعد سامنے آیا ہے۔
رائیٹر کے نامہ نگاروا لون کا کہنا ہے کہ ہم نے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا ہے ۔ لیکن میں جج کے آج کے فیصلے کے حوالے سے یہ کہنا چاہوں گا کہ ہم کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔ عدالت کے آج کے فیصلے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم قصوروار ہیں ۔ ہمیں ابھی بھی اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔
ان صحافیوں کو آفیشل سیکریٹس ایکٹ توڑنے کے الزامات کے تحت زیادہ سے زیادہ چودہ سا ل قید کی سزا ہو سکتی ہے ۔ ان کی حراست نے انسانی حقوق کے بین الاقوامی گروپس میں ایک تشویش کو جنم دیا ہے۔
رائیٹر کے صدر اور ایڈیٹر ان چیف سٹیفن اڈلر نے کہا ہے کہ عدالت کا پیر کے روز کا فیصلہ پریس کی آزادی اور قانون کی بالا دستی سے متعلق میانمر کے عہد کے بارے میں سخت شکو ک و شبہات پیدا کرتا ہے۔
ایک بیان میں ایڈلر نے کہا ہے کہ ہمیں اس پر سخت مایوسی ہوئی ہے کہ عدالت نے وا لون اور کیوسو اوکے خلاف اس طویل اور بے بنیاد کارروائی کے خاتمے سے انکار کیا ہے ۔ رائیٹر کے یہ صحافی ایک آزادانہ اور غیر جانبدارانہ طریقے سے اپنے پیشہ وارانہ فرائض انجام دے رہے تھے اور ایسے کوئی حقائق یا شواہد نہیں ہیں جو یہ ظاہر کریں کہ انہوں نے کوئی غلط کام کیا ہے یا کوئی قانون توڑا ہے۔