برما:فوج کی حمایت یافتہ جماعتوں کی فتح متوقع

یونین سولیڈیریٹری اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے امیدوار

برما میں 20سال بعد اتوار کو ہونے والے انتخابات میں فوجی کی حمایت یافتہ دو جماعتوں کے کامیاب ہونے کی توقع کی جارہی ہے۔

حکام نے تاحال یہ نہیں بتایا ہے کہ پارلیمان کے دونوں ایوانوں اور 14علاقائی اسمبلیوں کے لیے ہونے والے انتخابات کے نتائج کا اعلان کب کیا جائے گا۔ لیکن تجزیہ کاراس بات کا امکان ظاہر کررہے ہیں کہ یونین سولیڈیریٹری اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی پارلیمان کی زیادہ نشستیں جیت لے گی۔

حزب مخالف کی جماعتوں نے بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے کہا ہے کہ حکام نے رائے دہندگان پر حکومت کی حامی جماعتوں کو ووٹ ڈالنے کے لیے دباؤ ڈالا۔

اس دوران تھائی لینڈ کی سرحد سے ملحقہ علاقے سے تشدد کے واقعے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جہاں کارِن ملیشیا عناصر کی برمی فوج سے جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ ایک راکٹ گرینیڈ تھائی علاقے میں ایک دکان میں گر کر پھٹا جس سے تین افراد زخمی ہوگئے۔

تھائی سکیورٹی حکام نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تقریباً تین سو افراد تشدد سے بچنے کے لیے تھائی لینڈ میں داخل ہوئے ہیں جب کہ ایک پرائیویٹ ریلیف گروپ کاکہنا تھا کہ وہ مہاجرین کی ایک بڑی تعداد دیکھ رہے ہیں۔

برما میں انتخابی قوانین رواں سال کے اوائل میں مرتب کیے گئے جس کے مطابق پارلیمان کی ایک چوتھائی نشستیں فوج کے پاس رہیں گی اور حزب مخالف اور نسلی جماعتوں کے لیے مشکلات پیدا کی گئیں۔

حزب مخالف کی رہنما آنگ سان سوچی انتخابات کے دوران حراست میں رہیں اور زیادہ تر غیر ملکی صحافیوں اور بین الاقوامی مبصرین کو انتخابی عمل کا جائزہ لینے سے روک دیاگیا۔

امریکی صدر براک اوباما اور برطانوی وزیرخارجہ ولیم ہیگ نے اتوار کو الگ الگ بیانات میں ان انتخابات کو غیر منصفانہ اور غیر شفاف قراردیا تھا۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق برما بین الاقوامی سطح پر متعین کردہ معیار کے مطابق شفاف اور جائز انتخابات کروانے میں ناکام رہا ہے۔ بیان کے مطابق برمی حکومت نے بدستور 2100افراد کی سیاسی قید کوبرقرار رکھا ہے جو کہ انتخابی عمل میں ’واضح نقص‘کی عکاسی کرتا ہے۔