امریکی ایوانِ نمائندگان نے بدھ کو واضح اکثریت سےبرما کے خلاف ایک اور سال کے لیے پابندیوں کی منظوری دے دی۔
اِس سے قبل کہ صدر براک اوباما دستخط کرکے اِسے قانونی شکل دے دیں، اِس اقدام کی اب سینیٹ کو منظوری دینا باقی ہے۔
‘برما کے لیے امریکی مہم’ نامی واشنگٹن میں قائم ایک گروپ نے برما کی فوجی حکومت کے خلاف پابندیوں کی منظوری کا خیرمقدم کیا ہے۔
گروپ میں برما کے جلاوطن کارکنوں کے اتحاد کے سرگرم کارکن اور امریکہ میں حقوقِ انسانی کی مہم چلانے والے شامل ہیں۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ امریکی کانگریس نے یہ واضح پیغام بھیجا ہے کہ یہ پابندیاں اُس وقت تک نہیں اُٹھائی جائیں گی جب تک برما میں حقیقی تبدیلیاں نہیں لائی جاتیں۔
اِن میں، فوری اور بغیر کسی شرط کے آنگ ساں سوچی اورتمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنا اور ساتھ ہی بامعنی سیاسی مذاکرات جاری کرنا شامل ہے۔
گذشتہ ہفتے برما نے حزبِ اختلاف کی اُس جماعت کو آنے والے انتخابات میں شرکت کی اجازت دی ہے جوکہ آنگ سان سوچی کی نیشنل لیگ فور ڈیموکریسی سے علیحدہ ہونے والا دھڑا ہے۔
سرکاری تحویل میں شائع ہونے والے اخبار ‘نیو لائٹ آف میانمار’ نے ہفتے کو کہا کہ نیشنل ڈیموکریٹک فورس ، 37دیگر نئی سیاسی پارٹیوں اور پانچ موجودہ گروپوں سے مل کر اِس سال کے اواخر میں ہونے والے الیکشن لڑے گا۔ فوجی حکومت نے ابھی تک انتخابات کی کسی تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔
آنگ سان سو چی اِن انتخابات میں حصہ نہیں لیں گی۔ اُن کی پارٹی نے 1990ء میں ہونے والے انتخابات بھاری اکثریت سے جیتے تھے، لیکن اُنھیں اقتدارحوالے کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
انتخابات کے نئے قوانین کی رو سے آنگ سان سوچی پر کسی عہدے کے لیے انتخاب لڑنےپر پابندی عائد ہے۔ نیشنل لیگ فور ڈیموکریسی نے اِن قوانین کو غیر منصفانہ قرار دیا ہے۔