برطانیہ میں منعقد ہونے والا فارن برو ، اپنی نوعیت کا ایک منفرد ایئر شوہے، جس میں دنیا بھر میں موجود ہوابازی کے شعبے سے منسلک کمپنیاں اورادارے اپنے نئے ماڈل کے طیارے اور ٹکنالوجی نمائش کے لیے پیش کرتے ہیں ۔ اس موقع پر بڑے بڑے سودے بھی طے پاتے ہیں۔ اس سال کے اس ائیر شو کا نمایاں پہلو بڑے پیمانے پر طیاروں کی خریدو فروخت کے معاہدے تھے، جوفضائی صنعت میں بھی بہتری کی سمت ایک واضح اشارہ ہے۔
اس سال فارن برو کے ائیر شو میں بوئنگ کے 787 ڈریم لائنر کی نمائش کی گئی جو پہلی دفعہ عوام کے سامنے لایا گیا تھا۔ اس مسافر بردار طیارے کی تیاری میں زیادہ تر کارب فائبر پلاسٹک استعمال کیا گیا ہےجو وزن میں ایلومینیم سے ہلکا ہوتا ہے ۔ اپنی خصوصی ساخت کی بنا پر یہ طیارہ ایندھن کے استعمال میں بھی باکفایت ہے ۔ بوئنگ نے اس طیارے کو موجودہ صدی کا طیارہ قرار دیا ہے۔ بوئنگ کے مارکیٹنگ منیجر رینڈی ٹن سیتھ کا کہنا ہے کہ ان طیاروں کی فروخت میں اضافہ حوصلہ افزا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی معیشت سنبھل رہی ہے۔ لوگ ہوائی سفر کر رہے ہیں۔ آج ہم پچھلے سال سے بہت اچھی حالت میں ہیں اور مستقبل کے بارے میں پر امید ہیں۔
اس کے علاوہ بوئنگ کے حریف، ایئر بس کے طیارے اے 380 کی مانگ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔2009 ءمیں معاشی مندی کے باعث ہونے والے نقصان کے بعد فضائی سفر کی صنعت میں بہتری دیکھنے میں آ رہی ہے۔
امریکہ اور یورپ کے کئی ملکوں کی مہنگے جنگی جہازوں کی خرید میں دلچسپی میں کمی آئی ہے۔ ائیر بس کا مال بردار فوجی جہاز اے 400 ایم ابھی تک تیاری کے مراحل میں ہے اور کئی بلین ڈالر کے خسارے میں جا رہا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ دلچسپی رکھنے والے ملکوں نے دوسرے سستے جہاز خرید لیے ہیں ۔ لیکن فضائی تجزیہ کار ہاورڈ ویلڈن کا کہنا ہے کہ کچھ ملکوں میں جنگی جہازوں کی مانگ میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چین اوربھارت جیسے ممالک اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کر رہے ہیں، جس سے ان طیاروں کی مانگ بڑھ سکتی ہے۔
اس کے علاوہ روس بھی دوسرے ملکوں سے دفاعی سازوسامان خرید رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دفاعی اخراجات میں کمی یا اضافے کا تعلق متعلقہ ملک کی حکمت عملی سے ہوتا ہے اور آج کل جنگی حکمت عملی کی بجائے دفاع اور انٹیلی جنس پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔
اگرچہ جنگی اور فضائی جہازوں کی صنعت اتار چڑھاؤ کا شکار ہے ، لیکن فارن بارو ائیر شو میں جہازوں کی فروخت میں اضافہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہےکہ عالمی معیشیت میں بہتری کے آثار نظر آرہے ہیں۔