برطانیہ نے ہانگ کانگ کے شہریوں کے لیے دروازے کھول دیے، چین کی سخت تنقید

فائل فوٹو

ہانگ کانگ کے وہ رہائشی جو چین کی جانب سے نئے سیکیورٹی قوانین کے نفاذ کے بعد علاقے سے نکلنا چاہتے ہیں، اب برطانیہ میں سکونت کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔

برطانیہ نے برٹش نیشنل اوورسیز (بی این او) پروگرام کے تحت اتوار سے ہانگ کانگ کے رہائشیوں سے درخواستیں لینا شروع کر دی ہیں۔

'بی این او' ایک سفری دستاویز ہے جو 1997 میں برطانیہ کی جانب سے ہانگ کانگ کو چین کے حوالے کرنے سے قبل اس کے شہریوں کو دی گئی تھی۔ لگ بھگ تین لاکھ افراد کے پاس یہ دستاویز ہے جس کے ذریعے یہ افراد بغیر کسی رکاوٹ کے برطانیہ کا سفر اور چھ ماہ تک وہاں قیام کر سکتے ہیں۔

1997 سے قبل پیدا ہونے والے ہانگ کانگ کے شہری 'بی این او'​ کے حصول کے لیے درخواست دینے کے اہل ہیں۔

یہ پالیسی ہانگ کانگ کے رہائشیوں کو برطانیہ منتقل ہونے کا اہل بناتی ہے اور ایک ایسا راستہ ہے جو پانچ سال کے بعد شہریت فراہم کرتا ہے۔

برطانیہ کی وزیر داخلہ پریتی پٹیل نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ ہانگ کانگ کے لیے برطانوی شہری (اوورسیز) ویزہ اب درخواستوں کے لیے کھلا ہے۔ برٹش نیشنل اوورسیز کے پاس اب یہ راستہ ہے کہ وہ برطانیہ میں رہ سکیں، کام کر سکیں یا تعلیم حاصل کر سکیں۔ وہ اپنی زندگیاں نئے سرے سے شروع کرنے میں آزاد ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

برطانیہ کی ہانگ کانگ امیگریشن پالیسی پر چین خفا

اُن کا کہنا تھا کہ یہ ہانگ کانگ کے لوگوں کے ساتھ مضبوط تاریخی تعلقات میں ایک قابلِ فخر دن ہے کہ ہم ان کے ساتھ اپنے وعدے کی بھی پاسداری کر رہے ہیں۔

برطانیہ کی اس پیش کش سے ہانگ کانگ کے 54 لاکھ افراد استفادہ کرتے ہوئے برطانوی شہریت لے سکتے ہیں جن میں بی این او پر انحصار کرنے والے اور اٹھارہ سے تئیس سال کی عمر کے ان کے بچے شامل ہیں۔

چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لیجیان ژاؤ نے برطانیہ کے اس اقدام پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ چین برٹش نیشنل اوورسیز پاسپورٹ کو سفری دستاویز کے طور پر تسلیم نہیں کرتا۔ لہذٰا ہم مزید اقدامات کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

چینی حکومت سے منسلک میڈیا ادارے 'گلوبل ٹائمز' نے اپنے اداریے میں برطانیہ کے فیصلے پر تنقید کی ہے اور اس بات کو مسترد کیا ہے کہ ہانگ کانگ سے نقل مکانی چین کے لیے کوئی قابل ذکر اثرات رکھتی ہے۔ اداریے میں برطانیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا کہ ایسے وقت میں جب امریکہ اور چین کے درمیان تناؤ ہے، برطانیہ نے امریکہ کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کیا ہے۔

واضح رہے کہ ہانگ کانگ چین کا نیم خود مختار علاقہ ہے جو ماضی میں برطانیہ کی کالونی بھی رہا ہے۔ برطانیہ نے 1997 میں ایک معاہدے کے تحت ہانگ کانگ کا انتظام چین کے سپرد کیا تھا اور معاہدے میں یہ بات شامل تھی کہ 'ایک ملک دو نظام' معاہدے کے تحت ہانگ کانگ کی خود مختاری کا تحفظ کیا جائے گا۔

تاہم ہانگ کانگ میں جمہوریت کے حق میں مظاہروں اور احتجاجی تحریک کے بعد چین نے وہاں ایک سخت قانون نافذ کیا ہے جس کے تحت حکومتی مخالفین کو کڑی سزائیں دی جا سکیں گی۔

نیا سیکیورٹی قانون ہانگ کانگ کے شہریوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ علیحدگی سے متعلق کسی بھی قسم کی سرگرمیوں میں شرکت، علیحدگی کے نعرے لگانے یا بینرز اور جھنڈوں کو تھامنے سے گریز کریں۔ بصورتِ دیگر وہ قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں گے۔

ہانگ کانگ میں سیکیورٹی قانون کے نفاذ کے بعد سے امریکہ اور مختلف ممالک اپنے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ دوسری جانب چین کا مؤقف ہے کہ مغربی طاقتیں ہانگ کانگ کے معاملات میں مداخلت بند کریں۔

ہانگ کانگ میں دسیوں سالوں سے مقیم ایک سینئر قانون دان نے کہا ہے کہ نیشنل سکیورٹی لا ہانگ کانگ سے بڑی نقل مکانی کا ذمہ دار ہے۔ سینئر وکیل نے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی درخواست کی ہے۔