برطانیہ نے واضح کیا ہے کہ ایران کا تیل بردار جہاز چھوڑنے کے عوض برطانوی بحری جہاز کو ایران کی تحویل سے چھڑانے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔
برطانیہ کے نئے وزیر خارجہ ڈومینک راب کا کہنا ہے کہ اگر ایران تاریکی سے باہر نکلنا چاہتا ہے تو اسے برطانوی بحری جہاز چھوڑنا ہو گا۔
برطانیہ نے چند روز قبل جبل الطارق کے پانیوں سے ایران کا تیل بردار جہاز پکڑ لیا تھا، حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ جہاز یورپی یونین کی جانب شام پر عائد پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خام تیل شام لے کر جا رہا تھا۔
اس واقعے کے چند روز بعد ردعمل کے طور پر ایران نے بھی آبنائے ہرمز میں برطانیہ کا ایک بحری جہاز تحویل میں لے لیا تھا۔ ایرانی حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ جہاز بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا تھا۔ تاہم بعدازاں ایران نے اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے اسے آئل ٹینکر قبضے میں لیے جانے کا ردعمل قرار دیا تھا۔
برطانوی وزیرِ خارجہ ڈومینک راب نے بی بی سی ریڈیو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ اشیاء کی لین دین کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں کا مسئلہ ہے۔
برطانیہ کے بحری جہاز کو تحویل میں لینے کے بعد ایران کا موقف تھا کہ یہ جہاز مچھیروں کی کشتی سے ٹکرایا تھا۔ جس کے بعد بین الاقوامی بحری قانون کے مطابق اس حادثے کی وجوہات کی تحقیقات کے لئے برطانوی جہاز کو تحویل میں لینا ضروری تھا۔
ایران کی جانب سے برطانوی بحری جہاز کی ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی تھی۔ جس میں ایرانی کمانڈوز کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے بحری جہاز پر اترتے دیکھا جاسکتا ہے۔
جولائی کے پہلے ہفتے میں برطانیہ کی رائل نیوی نے جبل الطارق کے پانیوں میں ایران کا ایک تیل بردار جہاز تحویل میں لیا تھا۔ برطانوی حکام نے یہ دعوی کیا تھا یہ ایرانی آئل ٹینکر پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تقریباً تین لاکھ ٹن خام تیل لے کر شام جا رہا تھا۔ یاد رہے کہ شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کو ایران کا حلیف سمجھا جاتا ہے۔
اس کاروائی کے بعد ایران کے پاسداران انقلاب نے دھمکی دی تھی کہ برطانیہ کے اس اقدام پر ایران بھی برطانیہ کا جہاز پکڑ سکتا ہے۔
ایران امریکہ کشیدگی برقرار
واضح رہے کہ گزشتہ دو ماہ میں خلیجِ عُمان کے قریب چھ تیل بردار بحری جہازوں پر حملے ہوئے ہیں۔ امریکہ ان حملوں کا ذمہدار ایران کو قرار دیتا ہے جب کہ ایران ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔
گزشتہ ماہ ایران نے امریکہ کا ڈرون طیارہ مار گرایا تھا جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر حملوں کا عندیہ بھی دیا تھا۔ گزشتہ روز امریکہ نے بھی ایران کا ایک ڈرون طیارہ مار گرانے کا دعویٰ کیا تھا جس کی ایران نے تردید کی ہے۔
یاد رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ایران سے کشیدہ حالات کے باعث دو ہزار فوجی مشرقِ وسطیٰ پہلے ہی بھیج چکی ہے جس کا مقصد خطے میں ایران کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ مزید فوجی بھیجنے سے مشرقِ وسطیٰ میں پہلے سے موجود فوج کی استعداد میں بھی اضافہ ہو گا۔
امریکہ مشرقِ وسطیٰ میں اپنے جنگی طیارے اور ہوا میں مار کرنے والے میزائل سسٹم کی تنصیب بھی کرچکا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ وہ ایران سے جنگ نہیں چاہتے لیکن اگر انہیں جنگ پر مجبور کیا گیا تو امریکہ ایسا جواب دے گا جو پہلے کسی نے نہیں دیکھا ہوگا۔