برطانیہ کی اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی کے رہنما جیرمی کوربن نے کہا ہے کہ وہ برطانیہ کے یورپی یونین کے بغیر ڈیل کے انخلا کی بھرپور مزاحمت کریں گے۔
اپوزیشن رہنما نے حکومتی منصوبے کے خلاف دیگر ارکان پارلیمان سے رابطوں کا بھی اعلان کیا ہے۔
خیال رہے کہ برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے فرانس میں جی سیون ممالک کے اجلاس کے دوران عندیہ دیا تھا کہ وہ یورپی یونین سے بغیر معاہدے کے انخلا سے گریز نہیں کریں گے۔
بورس جانسن کا مزید کہنا تھا کہ برطانیہ یورپی یونین سے انخلا کے لیے دی گئی 31 اکتوبر کی ڈیڈ لائن تک مذاکرات جاری رکھے گا۔
جیرمی کوربن نے برطانوی اخبار 'انڈیپینڈینٹ' میں لکھے گئے اپنے مضمون میں کہا ہے کہ بغیر معاہدے کے یورپی یونین سے انخلا کا نقصان برطانوی ووٹرز کو ہوگا تاہم کاروباری ادارے اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔
انہوں مزید لکھا کہ اگر برطانیہ بغیر معاہدے کے یورپی یونین سے الگ ہوا تو وہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکہ کے بڑے کاروباری اداروں کے رحم و کرم پر ہوگا۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ متعدد مواقع پر برطانیہ کو تجارتی معاہدے کی دعوت دے چکے ہیں۔
جیرمی کوربن کا کہنا تھا کہ بریگزٹ کی جنگ ریفرنڈم کے ذریعے اپنا فیصلہ سنانے والی اکثریت پر اپنی رائے مسلط کرنے والی اقلیت کے درمیان ہے۔ یہ اقلیت طاقت اور دولت کو چند بڑے لوگوں تک محدود کرنا چاہتی ہے۔ اسی لیے اُن کی پارٹی اس کی مزاحمت کرے گی۔
یورپی یونین نے پہلے ہی واضح کر دیا ہے کہ بریگزٹ سے متعلق یورپی یونین اور سابق برطانوی وزیرِ اعظم تھریسامے کے درمیان ہونے والے معاہدے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔
فرانس میں جی سیون اجلاس کے دوران یورپی کونسل کے سربراہ ڈونلڈ ٹسک اور برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن نے ایک دوسرے پر تنقید بھی کی تھی۔
ڈونلڈ ٹسک نے کہا تھا کہ وہ برطانیہ کے ساتھ بغیر کسی معاہدے کے انخلا کو تسلیم نہیں کر سکتے۔
بورس جانسن اعلان کر چکے ہیں کہ وہ بریگزٹ پر نیا معاہدہ کرنے کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کو ان اربوں ڈالرز کی ادائیگی بھی نہیں کریں گے جو یونین کے بجٹ کے تحت برطانیہ پر واجب الادا ہیں۔
یاد رہے کہ 2016 میں یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے ہونے والے ریفرنڈم میں 48 فی صد کے مقابلے میں 52 فی صد عوام نے یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
لیکن، اس ریفرنڈم کے نتیجے میں برطانوی معاشرہ، سیاست اور سیاسی جماعتیں بری طرح تقسیم کا شکار ہوچکی ہیں اور گزشتہ تین سال سے یہ معاملہ برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان تنازع کی صورت اختیار کر چکا ہے۔