برطانیہ کی پولیس کا کہنا ہے کہ ملک کے یورپی یونین سے علیحدگی کے فیصلے کے بعد سے ملک بھر میں نفرت پر مبنی جرائم کی شرح بڑھنے لگی ہے۔
پولیس کی طرف سے جمعہ کو جاری ہونے والی رپورٹ کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ بریگزٹ کے ووٹ کے بعد سے ملک بھر میں نفرت اور مذہبی تعصب کی بنیاد پر کئے جانے والے جرائم جاری ہیں اور صرف پچھلے مہینے میں تارکین وطن اور یورپی باشندوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کے 6000 سے زیادہ کیسز سامنے آئے ہیں۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں 16 جون سے چار ہفتوں کے درمیان ملک بھر میں 6,193 جرائم ہوئے ہیں، جن میں نسلی تعصب کی بنیاد پر اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد بالخصوص تارکین وطن اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
ان جرائم میں زیادہ تر یورپی تارکین وطن کے ساتھ بدسلوکی اور اسلامو فوبک جرائم رپورٹ ہوئے ہیں۔
ملک بھر میں زیادہ عام جرائم میں نفرت کا نشانہ بننے والے لوگوں کو ہراساں کیا گیا ہے اور ان پر تشدد سمیت زبانی بدکلامی اور تھوکا گیا ہے۔
برطانیہ میں 23 جون کو یورپی یونین چھوڑنے کے لیے ووٹ دیا گیا تھا اور بریگزٹ کے نتیجے میں ہونے والی تقسیم نے ملک بھر میں نسل پرستی کو ہوا دی ہے، جس میں امیگریشن ایک اہم مسئلہ تھا۔
تازہ ترین اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ 3001 جرائم صرف جولائی کے پہلے دو ہفتوں میں ہوئے ہیں جو پچھلے پندرہ دنوں کے مقابلے میں 6فیصد کم ہیں تاہم پچھلے برس اس ماہ کے اعداد و شمار کے مقابلے میں 20 فیصد سے زیادہ ہیں۔
نیشنل پولیس چیفس کونسل نے اس ماہ کے اوائل میں جاری کی گئی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ جون کے آخری دو ہفتوں کے جرائم کے اعداد و شمار پچھلے سال کے مقابلے میں 42 فیصد اضافے کو ظاہر کرتے ہیں۔
برطانوی پولیس کی جانب سے نفرت پر مبنی جرائم میں اضافے کے خاتمے کے لیے مضبوط نقطہ نظر اپنایا گیا ہے اس حوالے سے قومی پولیس چیفس کونسل کے ترجمان مارک پیملٹن نے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ ایسے واقعات کی تعداد کم ہو رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ واضح طور پر نفرت پر مبنی جرائم قابل قبول نہیں ہیں اور ان کی تعداد اب بھی بہت زیادہ ہے۔
برطانیہ کی مسلم کونسل "ایم سی بی" کی طرف سے بھی بڑھتے ہوئے اسلامو فوبک واقعات پر خدشات کا اظہار کیا گیا ہے اور مسلمانوں کے مذہبی بنیادوں پر جرائم کا نشانہ بننے کے واقعات کے حوالے سے ایک رپورٹ مرتب کی گئی ہے۔
بریگزٹ یعنی یورپی یونین چھوڑ دو مہم پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بریگزٹ سے ملک میں اجنبیوں کے ساتھ بیزاری بڑھی ہے جبکہ ریفرنڈم سے صرف ایک ہفتے پہلے اپوزیشن جماعت لیبر کی ایک سیاست دان اور خاتون رکن پارلیمان جو کوکس، جو "ریمین" یعنی یورپی یونین میں رہنے کی حامی تھیں انھیں شمالی برطانیہ میں ان کے حلقے میں چاقو سے حملے اور گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔