برطانیہ کے عوام کی طرف سے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں فیصلہ دیے جانے کے بعد یورپی اتحاد کا کہنا ہے کہ برطانیہ اس انخلا کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے وضاحت کے ساتھ جلد از جلد لائحہ عمل پیش کرے۔
جمعرات کو ہونے والے ریفرنڈم میں برطانوی عوام کی اکثریت نے یونین سے علیحدگی کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے جلد یہ منصب چھوڑنے کا بتایا تھا۔
جرمنی میں برلن کے مضافات میں یورپی یونین کے چھ بانی رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کے ہنگامی اجلاس کے بعد مشترکہ بیان میں اس توقع کا اظہار کیا گیا کہ برطانوی حکومت ریفرنڈم کے فیصلے پر جلد عملدرآمد کرے گی۔
جرمنی کے وزیر خارجہ فرینک والٹر سٹیئنمیئر کا کہنا تھا کہ "ہم مشترکہ طور پر یہ کہتے ہیں یہ (علیحدگی کا) عمل جلد از جلد شروع کیا جائے تاکہ بجائے اس کے کہ ہم یورپ کے مستقبل کے لیے کام پر توجہ دیں، ہم خواہ مخواہ کسی طوالت میں نہ پھنس جائیں۔"
یورپی یونین کے مطابق برطانیہ کو علیحدگی کے لیے باضابطہ طور پر خط لکھنا ہوگا اور معاہدے کے تحت علیحدگی کا عمل دو سال کے عرصے میں مکمل کرنا ہوگا۔
اجلاس میں جرمنی، فرانس، اٹلی، نیدرلینڈز، بیلجیئم اور لیگزمبرگ کے وزرائے خارجہ شریک ہوئے تھے۔
ادھر فرانس کے صدر فرانسواں اولاند نے بھی ایک بیان میں کہا کہ انھیں یورپی یونین سے علیحدگی کے برطانوی عوام کے فیصلے پر افسوس ہے، لیکن اسے قبول کرنا پڑا ہے، کیونکہ "یہی جمہوریت ہے۔
ان کے بقول برطانیہ کو یورپی یونین سے مناسب طریقے سے علیحدہ ہو جانا چاہیئے۔
صدر اولاند سے ملاقات کے لیے آنے والے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا کہ برطانیہ اور یورپی یونین کو "اب آگے کے لائحہ عمل کے لیے بھرپور مذاکرات کرنا ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ مذاکرات مثبت اور بامعنی انداز میں ہوں گے۔"
دریں اثناء یورپی یونین کے لیے برطانیہ کے کمشنر جوناتھن ہل نے یہ کہہ کر استعفے کا اعلان کیا کہ وہ برطانوی عوام کے فیصلے کے بعد ان کا اس منصب پر کام جاری رکھنا درست نہیں ہوگا۔
انھوں نے ریفرنڈم کے نتائج پر افسوس کا اظہار کیا لیکن ان کے بقول "جو ہوگیا اسے مٹایا نہیں جا سکتا۔"