یورپی قانون، انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں میں حائل

فائل فوٹو

گذشتہ سال، برطانوی امیگریشن کے ایک خصوصی کمیشن نے فیصلہ دیا تھا کہ برطانیہ اُن گرفتار ہونے والے دو پاکستانیوں کو ملک بدر نہیں کر سکتا جومبینہ طور پر دہشت گرد حملوں کی سازش میں ملوث پائے گئے تھے، کیونکہ پاکستان میں اُنھیں اپنی جان کی حفاظت کا خطرہ درپیش ہوگا

انسدادِ دہشت گردی سےمتعلق برطانوی عہدےدار کا کہنا ہے کہ ایک مروجہ یورپی قانون دہشت گردی میں ملوث کچھ مشتبہ غیرملکیوں کوبرطانیہ بدرکرنے میں حائل ہے، جِس کے باعث ملک انتہا پسندوں کا محفوظ ٹھکانہ بنتا جارہا ہے۔

جمعرات کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں الیکس کارلائل نے انسانی حقوق سے متعلق اِس قانون کے حوالے سے یورپی عدالت پر تنقید کی۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ قانون برطانیہ کو اِس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ مشتبہ دہشت گردوں کو اُن کے آبائی ملکوں کو روانہ کرے اگر اُنھیں اِس بات کا خطرہ لاحق ہو کہ اُن کے ساتھ بُرا برتاؤ ہوگا۔

اُنھوں نے کہا کہ اِس قانون کی موجودگی میں برطانیہ ایسے مشتبہ اشخاص کو ملک بدر نہیں کرسکتا جن پر دہشت گرد حملوں کی سازش کا الزام ہو۔

گذشتہ سال، برطانوی امیگریشن کے ایک خصوصی کمیشن نے فیصلہ دیا تھا کہ برطانیہ اُن گرفتار ہونے والے دو پاکستانیوں کو ملک بدر نہیں کر سکتا جومبینہ طور پر دہشت گرد حملوں کی سازش میں ملوث پائے گئے تھے، کیونکہ پاکستان میں اُنھیں اپنی جان کی حفاظت کا خطرہ درپیش ہوگا۔
اِس حکم نامے سے سابقہ اُس عدالتی بیان کے باوجود درپیش ہے جس میں ایک عدالت نے فیصلہ صادر کیا تھا کہ یہ مشتبہ افراد برطانیہ کی قومی سلامتی کے لیے خطرے کی حیثیت رکھتے ہیں، اور یہ کہ اُن میں سے ایک القاعدہ کا سرگرم رکن ہے۔