داعش سے نبرد آزما اتحاد کے خصوصی امریکی ایلچی مستعفی

فائل

داعش کو شکست دینے کے مقصد سے قائم عالمی اتحاد کے امریکی نمائندہ خصوصی، بریٹ مک گرک نےجمعے کے روز استعفیٰ پیش کیا۔ یہ خبر ہفتے کے روز 'سی بی ایس' نے ذرائع کے حوالے سے دی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اہلکار نے ہفتے کے روز بتایا ہے کہ استعفیٰ 31 دسمبر سے نافذ العمل ہوگا۔

'رائٹرز' نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مک گرک کے مستعفی ہونے کا باعث شام سے امریکی فوجوں کے انخلا کا صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا فیصلہ بنا۔

اس سے قبل، امریکی وزیر دفاع جم میٹس اسی فیصلے پر مستعفی ہو چکے ہیں۔

مک گرک فروری 2019 میں عہدے کی میعاد پوری کرنے والے تھے۔ اُنھوں نے شام سے امریکی فوجوں کی واپسی کے ٹرمپ کے فیصلے پر اعتراض کیا تھا۔ یہ بات معاملات سے واقف ایک شخص نے بتائی ہے، جن کا مزید کہنا ہے کہ میٹس کے جانے کے فیصلے نے مک گرک کے مستعفی ہونے پر ''گہرا اثر'' ڈالا۔

مک گرک کو سابق صدر براک اوباما نے اکتوبر 2015ء میں مقرر کیا تھا، جو شمالی شام میں امریکی پالیسی مرتب کرنے کا باعث بنے تھے، خاص طور پر کُرد قیادت والی 'سیرین ڈیموکریٹک فورسز' (ایس ڈی ایف) کی حمایت کرنا۔ یہ کُرد اور عرب ملیشیائوں کا ایک اتحاد ہے، جو امریکی حمایت کے ساتھ گذشتہ تین برسوں سے داعش کے لڑاکوں سے نمٹتا رہا ہے۔

امریکی اتحادی افواج نے شمالی شام میں سنی جہادی گروپ کے خلاف اہمیت کی حامل کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اتحاد نے رقہ کے کلیدی شہر کو واگزار کرا لیا ہے، جہاں کسی وقت داعش نے خودساختہ خلافت کا اعلان کیا تھا۔ لیکن، دیگر امریکی اداروں کی مدد سے مک گرک یہ خیال کرتے تھے کہ شدت پسند گروپ کے خلاف لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی۔

مک گرک نے 11 دسمبر کو محکمہ خارجہ میں اخباری نمائندوں کو بتایا تھا کہ ''یہ کہئے کہ یہ ایک غیر ذمہ دارانہ حرکت ہوگی کہ چونکہ خلافت کو بظاہر شکست ہوئی ہے، اس لیے اب ہم جاسکتے ہیں''۔

اُنھوں نے مزید کہا کہ ''ایسے میں جب داعش کا خاتمہ قریب تر ہے، دولت اسلامیہ تبھی ختم ہوگی جب اس کے خلاف ایک طویل مدتی حکمت عملی جاری رکھی جائے''۔

بقول اُن کے، ''کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مشن کی تکمیل ہو چکی ہے''۔