اسرائیل حماس جنگ سے نہ صرف مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں بے چینی پائی جاتی ہے بلکہ اس خطے میں مغربی ممالک کی مصنوعات کو بائیکاٹ مہم کا بھی سامنا ہے۔
مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں امریکہ کی فاسٹ فوڈ چین میکڈونلڈز میں خریدار نہ ہونے کے برابر ہیں جہاں عملہ کرسیاں تو صاف کرتا ہے لیکن گاہک کوئی نہیں آ رہا۔ اس صورتِ حال کا سامنا صرف میکڈونلڈز کو ہی نہیں بلکہ دیگر مغربی برانڈز کو بھی ہے۔
مغربی برانڈز مصر اور اردن میں مصنوعات کے غیر اعلانیہ بائیکاٹ کو محسوس کر رہی ہیں جب کہ بائیکاٹ کی مہم کا دائرہ کویت اور مراکش تک پھیل چکا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں بھی کسی حد تک مغربی برانڈز کی فروخت میں کمی آئی ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق منگل کو کویت سٹی میں ایک جائزے کے دوران نوٹ کیا گیا ہے کہ امریکی کافی برانڈ اسٹاربکس، میکڈونلڈز اور کے ایف سی کی سات برانچز تقریباً خالی پڑی تھیں۔
عرب ممالک میں جن مغربی کمپنیوں کے بائیکاٹ کی مہم چلائی جا رہی ہے ان کے بارے میں مقامی سطح پر یہ تصور ہے کہ ان کمپنیوں نے تنازع میں اسرائیل نواز مؤقف اختیار کیا جب کہ بعض کمپنیوں کو مبینہ طور پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات یا اسرائیل میں سرمایہ کاری کے الزام کا سامنا ہے۔
قاہرہ کے 31 سالہ شہری ریحام حامد امریکی فاسٹ فوڈ چین سمیت بعض صفائی ستھرائی کی مصنوعات کا بھی بائیکاٹ کر رہے ہیں۔
’رائٹرز‘ سے گفتگو میں ریحام حامد کا کہنا تھا کہ ان کے اس اقدام سے جنگ پر تو کوئی بڑا اثر نہیں پڑے گا لیکن یہ وہ چھوٹے سے چھوٹا قدم ہے جو مختلف قوموں کے لوگ کر سکتے ہیں۔
اردن میں بائیکاٹ مہم کے حامی میکڈونلڈز اور اسٹاربکس کی برانچز میں داخل ہو کر اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اپنے کاروبار کسی اور جگہ منتقل کر لیں۔
اسی طرح بائیکاٹ مہم کے حامی کپڑے دھونے کے ایک مشہور پاؤڈر کے بائیکاٹ پر زور دے رہے ہیں جسے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں اسرائیلی فوجیوں کی وردیاں دھوتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
اردن کے دارالحکومت عمان کے ایک بڑے سپر مارکیٹ کے کیشئر احمد الزارو نے بتایا کہ کوئی بھی اب غیر ملکی مصنوعات نہیں خرید رہا۔
مراکش کے دارالحکومت رباط میں اسٹاربکس کے ملازم کا کہنا تھا کہ رواں ہفتے صارفین کی تعداد میں بڑی کمی ہوئی ہے۔ تاہم ملازم یا کمپنی نے گاہکوں کی تعداد کے بارے میں نہیں بتایا۔
واضح رہے کہ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے سات اکتوبر پر اسرائیل پر حملے میں تل ابیب حکام کے مطابق 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد اسرائیل نے اعلانِ جنگ کرتے ہوئے غزہ پر حملے شروع کر دیے تھے۔
اسرائیلی کے حملوں میں غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 13 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیل حماس جنگ کے بعد نہ صرف عرب اور مسلم ممالک بلکہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس سمیت مختلف مغربی ملکوں میں جنگ بندی اور فلسطینیوں کی حمایت میں کئی بڑے مظاہرے ہوئے ہیں۔
انہی مظاہروں کے دوران سوشل میڈیا پر امریکہ سمیت مغربی ملکوں کے برانڈز اور مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم بھی چلائی گئی۔
میکڈونلڈز نے گزشتہ ماہ ایک بیان میں کہا تھا کہ اسے اسرائیل حماس تنازع کے دوران کمپنی سے متعلق پھیلائی جانے والی غلط معلومات پر افسوس ہے۔
میکڈونلڈز نے کہا تھا کہ اس کے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں۔
دوسری جانب بائیکاٹ مہم کے زور پکڑنے پر میکڈونلڈز کی مصر میں موجود فرنچائز کے مالک کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ مقامی میکڈونلڈز برانچ ان کی اپنی ملکیت ہے جب کہ انہوں نے غزہ کے لیے دو کروڑ مصری پاؤنڈ امداد کا بھی وعدہ کیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
’رائٹرز‘ کے مطابق جب اسٹاربکس سے مؤقف کے لیے رابطہ کیا گیا تو کمپنی نے مشرقِ وسطیٰ میں اپنے آپریشنز سے متعلق اکتوبر میں جاری کردہ بیان کا حوالہ دیا اور کہا کہ یہ بیان ویب سائٹ پر موجود ہے۔
اسٹاربکس کے بیان کے مطابق کمپنی غیر سیاسی ہے اور اس کے اسرائیلی حکومت یا فوج کی حمایت سے متعلق پھیلائی جانے والی معلومات بے بنیاد ہیں۔
اسٹاربکس نے رواں ماہ بتایا کہ اس نے چوتھی سہ ماہی کے دوران ریکارڈ بزنس کیا ہے اور اس کے پاس اپنے کاروبار سے متعلق مزید کچھ کہنے کے لیے نہیں ہے۔
مغربی ممالک کی دیگر کمپنیوں نے رائٹرز کی درخواست پر تاحال کوئی مؤقف نہیں دیا ہے۔
البتہ مغربی برانڈز اور مصنوعات کا بائیکاٹ ان ممالک میں دیکھا جا رہا ہے جہاں فلسطینیوں کی حمایت کے جذبات زیادہ پائے جاتے ہیں اور ان ملکوں میں اسرائیل حماس جنگ کے بعد کئی بڑے مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔
اس رپورٹ کے لیے مواد خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لیا گیا ہے۔