استغاثے کا کہنا ہے کہ قانونی چارہ جوئی کے دوران، وہ روس میں پیدا ہونے والے اِس مشتبہ دہشت گرد کے خلاف سزائے موت کی استدعا کریں گے
واشنگٹن —
بوسٹن میراتھون بم حملوں کے ملزم زوخار سارنیف کے خلاف مقدمے کی باضابطہ سماعت تین نومبر سے ہوگی۔
اِس تاریخ کا تعین بدھ کو ایک امریکی ضلعی عدالت نے کیا۔
استغاثے کا کہنا ہے کہ قانونی چارہ جوئی کے دوران، وہ روس میں پیدا ہونے والے اِس مشتبہ دہشت گرد کے خلاف سزائے موت کی استدعا کریں گے۔
وکلائے استغاثہ نے الزام عائد کیا ہے کہ اس 20 برس کے ملزم اور اُن کے بڑے بھائی تمرلان نے گذشتہ اپریل میں بوسٹن میں منعقدہ دوڑ میں 'فنش لائن' کے قریب دو دیسی ساختہ 'پریشر کُکر' بم نصب کیے تھے۔ بعدازاں، تمرلان سارنیف پولیس کے ساتھ گولیوں کے تبادلے کے دوران مارا گیا۔
بم پھٹنے کی وجہ سے تین افراد ہلاک اور 250سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
زوخار سارنیف کے خلاف دائر کیے گئے الزامات میں بم حملوں کے تیسرے روز ایک یونیورسٹی کے پولیس افسر کی ہلاکت کا معاملہ بھی شامل ہے، ایسے میں جب وہ اور اُن کے بھائی علاقے سے روپوش ہونے کی کوشش میں تھے، حلانکہ مشتبہ افراد کے طور پر اُس وقت تک اُن کی شناخت ہوچکی تھی۔
وکلائی صفائی کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کے خواہاں تھے کہ مقدمے کا باضابطہ آغاز ستمبر 2015ء کے بعد عمل میں آئے، تاکہ قانون کا نفاذ کرنے والے اداروں کی طرف سے اکٹھے کیے گئے شواہد سے متعلق بے شمار حوالہ جات اور شواہد کا جائزہ لیا جا سکے۔
ہزاروں صفحات پر محیط اِن فائلوں کے علاوہ، کمپیوٹر ریکارڈ اور سکیورٹی کیمرہ سے کھینچی گئی تصاویر شہادت کے طور پر عدالت کے دفتر کے سامنے پیش کی گئی ہیں؛ اور یہ کہ وکلا – کو 2000جسمانی ثبوت کے طور پر دائر کردہ شواہد و حوالہ جات کا تجزیہ کرنا ہوگا؛ جس میں دھماکے کے مقام سے ملنے والی نوکیلی کیلیں اور تباہ شدہ گاڑیاں شامل ہیں۔
اِس تاریخ کا تعین بدھ کو ایک امریکی ضلعی عدالت نے کیا۔
استغاثے کا کہنا ہے کہ قانونی چارہ جوئی کے دوران، وہ روس میں پیدا ہونے والے اِس مشتبہ دہشت گرد کے خلاف سزائے موت کی استدعا کریں گے۔
وکلائے استغاثہ نے الزام عائد کیا ہے کہ اس 20 برس کے ملزم اور اُن کے بڑے بھائی تمرلان نے گذشتہ اپریل میں بوسٹن میں منعقدہ دوڑ میں 'فنش لائن' کے قریب دو دیسی ساختہ 'پریشر کُکر' بم نصب کیے تھے۔ بعدازاں، تمرلان سارنیف پولیس کے ساتھ گولیوں کے تبادلے کے دوران مارا گیا۔
بم پھٹنے کی وجہ سے تین افراد ہلاک اور 250سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
زوخار سارنیف کے خلاف دائر کیے گئے الزامات میں بم حملوں کے تیسرے روز ایک یونیورسٹی کے پولیس افسر کی ہلاکت کا معاملہ بھی شامل ہے، ایسے میں جب وہ اور اُن کے بھائی علاقے سے روپوش ہونے کی کوشش میں تھے، حلانکہ مشتبہ افراد کے طور پر اُس وقت تک اُن کی شناخت ہوچکی تھی۔
وکلائی صفائی کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کے خواہاں تھے کہ مقدمے کا باضابطہ آغاز ستمبر 2015ء کے بعد عمل میں آئے، تاکہ قانون کا نفاذ کرنے والے اداروں کی طرف سے اکٹھے کیے گئے شواہد سے متعلق بے شمار حوالہ جات اور شواہد کا جائزہ لیا جا سکے۔
ہزاروں صفحات پر محیط اِن فائلوں کے علاوہ، کمپیوٹر ریکارڈ اور سکیورٹی کیمرہ سے کھینچی گئی تصاویر شہادت کے طور پر عدالت کے دفتر کے سامنے پیش کی گئی ہیں؛ اور یہ کہ وکلا – کو 2000جسمانی ثبوت کے طور پر دائر کردہ شواہد و حوالہ جات کا تجزیہ کرنا ہوگا؛ جس میں دھماکے کے مقام سے ملنے والی نوکیلی کیلیں اور تباہ شدہ گاڑیاں شامل ہیں۔