برطانیہ کے وزیرِ اعظم بورس جانسن نے یورپی یونین سے کسی معاہدے کے بغیر انخلا کا منصوبہ تیار کر لیا ہے اور اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے انہوں نے ملکۂ برطانیہ سے پارلیمان کو معطل کرنے کی درخواست کر دی ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کے مطابق, بورس جانسن نے ملکۂ برطانیہ سے درخواست کی ہے کہ پارلیمان کو ستمبر کے وسط سے معطل کر دیا جائے۔ اس اقدام کا مقصد برطانوی قانون سازوں کو روکنا ہے, تاکہ یورپی یونین سے معاہدے کے بغیر برطانیہ کی علیحدگی کو یقینی بنایا جا سکے۔
بورس جانسن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پارلیمان کو 14 اکتوبر تک ملتوی رکھا جائے گا۔
خیال رہے کہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کی ڈیڈ لائن 31 اکتوبر ہے اور وزیرِ اعظم بورس جانسن کہہ چکے ہیں کہ اس حتمی تاریخ تک برطانیہ کسی نئے معاہدے کے تحت یا پھر معاہدے کے بغیر ہی یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کر لے گا۔
برطانوی پارلیمان کے ممبران ان دنوں موسم گرما کی تعطیلات پر ہیں جو تین ستمبر کو واپس آئیں گے۔
حکومت کی جانب سے پارلیمان کو معطل کرنے کے منصوبے سے لگتا ہے کہ ارکانِ کی چھٹیوں سے واپسی سے قبل ہی ایک ہفتے کے دوران کسی ایسی قانون سازی پر کام ہوگا جس سے یورپی یونین سے معاہدے کے بغیر انخلا کے منصوبے کو قانونی تحفظ فراہم کیا جا سکے گا۔
اطلاعات کے مطابق، بورس جانسن کے پارلیمان کو معطل کرنے کے اس منصوبے پر برطانیہ کی 'پریوی کونسل' کے اجلاس میں غور کیا جائے گا جہاں ملکۂ برطانیہ اس درخواست کو باقاعدہ طور پر منظور کر سکتی ہیں۔
خیال رہے کہ برطانوی وزیرِ اعظم یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر ’ڈو اور ڈائی‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور انہیں حزبِ اختلاف کے بعض ارکان کی حمایت بھی حاصل ہے۔
البتہ، بورس جانسن کی جانب سے پارلیمان کو معطل کیے جانے کی درخواست پر اپوزیشن رہنماؤں کا سخت ردّ عمل سامنے آیا ہے۔
حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت لیبر پارٹی سمیت لبرل ڈیمو کریٹس، گرین پارٹی اور دیگر جماعتوں نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان کے پاس قانون منظور کرنے اور تحریکِ عدم اعتماد لانے کے دو آپشنز موجود ہیں۔
ڈپٹی لیبر لیڈر ٹام واٹسن نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ پارلیمان کو معطل کرنے کا یہ اقدام ہماری جمہوریت کے لیے ایک متنازعہ عمل ہے اور ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والی ایک رکن پارلیمان کیرولائن لوکاس نے برطانیہ کے وزیرِ اعظم کو بزدل قرار دیتے ہوئے کہا کہ بورس جانسن جانتے ہیں کہ انہیں اپنے منصوبے پر عمل درآمد کرنے میں ارکان کی حمایت حاصل نہیں ہوگی۔ آئین کی رکاوٹیں اور برطانیہ کے عوام بورس جانسن کے اقدامات کے خلاف کھڑے ہوں گے۔
یاد رہے کہ برطانیہ ان دنوں ایک سیاسی بحران کا شکار ہے جو یورپی یونین سے علیحدگی سے متعلق 2016 میں ہونے والے ریفرنڈم کے بعد شروع ہوا تھا۔
سابق وزیرِ اعظم تھریسا مے کی حکومت اور یورپی یونین نے برطانیہ کی یونین سے علیحدگی کے بارے میں کئی ماہ طویل مذاکرات کے بعد جس معاہدے پر اتفاق کیا تھا اسے برطانوی پارلیمان تین بار مسترد کر چکی ہے۔