گزشتہ کئی سالوں میں پاکستان کو اقلیتوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے بین الاقوامی میڈیا میں کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ حال ہی میں دیکھنے میں آیا کہ کرتارپور راہداری کے کھلنے، مندروں کی بحالی اور آسیہ بی بی کی رہائی کے بعد اقلیتوں کے بارے میں پاکستان کے کچھ اقدامات کو سراہا گیا۔
لیکن، ایسا بہت کم ہوا ہے کہ کسی بین المذاہب تعلقات کے ماہر یا لکھاری نے پاکستان میں بسنے والے مختلف مذاہب کے پیروکاروں اور مختلف نسلوں کے لوگوں سے براہ راست مل کر ان کے حالات، خیالات اور پاکستان کے لیے ان کی اہمیت کے متعلق تفصیلی مطالعہ کیا ہو۔
اس سلسلے میں ڈاکٹر آمنہ ہوتی نے، جو علم بشریات کی ماہر ہیں، پاکستان کے طول و عرض میں بسی کثیرالثقافتی برادریوں سے ملنے اور بات چیت کرنے کے بعد ایک نئی کتاب تحریر کی ہے۔ انگریزی میں لکھی گئی اس کتاب کا عنوان 'جیمز اینڈ جیولز'، یعنی ہیرے جواہرات ہے۔، جو جلد ہی مارکیٹ اور انٹرنیٹ پر دستیاب ہوگی۔
ڈاکٹر آمنہ جو برطانیہ کی ناٹنگھم یونیورسٹی میں اعزازی پروفیسر ہیں پاکستان اور برطانیہ میں بین المذاہب ہم آہنگی اور امن کے موضوعات پر کام کرچکی ہیں۔ یہ کتاب ان کے ذاتی تجربات پر مبنی ہے، جس میں ان کے پاکستان کی عیسائی، ہندو، پارسی، سکھ، کلاش، بدھ مت اور دیگر برادریوں سے ملاقاتیں اور گفتگو شامل ہیں۔
ڈاکٹر آمنہ نے بتایا کہ ''جب مجھے ان کے رہن سہن، خیالات اور حالات کا علم ہوا تو مجھے ایسا لگا کہ میرے پاس ایک ان کہی اور پہلے کبھی نہ بتائی گئی کہانی ہے جسے مجھے بتانا چاہیے۔ مجھے ان کی قابلیت اور صلاحیت اور مختلف شعبوں میں مہارت جاننے کا موقع ملا۔ میں نے سوچا کہ یہ لوگ تو پاکستان کے ہیرے جواہرات ہیں اور پاکستان کے ساتھ ان کا ایک روحانی رشتہ ہے''۔
اس کتاب میں اکثریتی مسلم آبادی کے ساتھ ساتھ ان تمام مذاہب کے پیروکاروں کی کہانیاں شامل ہیں، جنہیں، بقول مصنف ''جان کر میرے اندر پاکستان کے مستقبل کے بارے میں ایک نیا ولولہ اور اعتماد پیدا ہوا ہے''۔
نامور شخصیات نے کتاب سے متعلق خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اسے پاکستان کے لئے ایک تحفہ قرار دیا ہے، کیونکہ، بقول ان کے، یہ کتاب ایک طرف تو پاکستانی اقلیتوں کی صلاحیتوں اور اہم کردار کو اجاگر کرتی ہے اور دوسری طرف قومی طور پر یہ بار آور کراتی ہے ہے کہ پاکستان کی ترقی میں ہم آہنگی، مساوات، اتحاد اور کثیر الثقافتی ورثہ اہم ترین ستون ہوں گے۔
پاکستانی برطانوی سیاستدان اور رگبی کے سابقہ میئر، جیمز شیرا نے اس کتاب کو ایک بڑی کاوش قرار دیا کہ اس کو پڑھںے سےہمیں پاکستان کی حقیقی تصویر نظر آتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اقلیتوں کو مسائل درپیش ہیں۔ لیکن، ڈاکٹر آمنہ ہوتی نے جو تعمیری اور مثبت انداز اپنایا ہے اس سے پاکستان کو انسانی سطح پر ہم آہنگی اور روحانی طور پر یکجہتی قاہم کرنے میں مدد ملے گی۔
کتاب کا پیش لفظ اردن کے شہزادہ دہ الحسن بن طلال نے لکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں ہیں کہ بین الاقوامی میڈیا میں ہر وقت پاکستان کو جنوبی ایشیا کا ایسا غیر مستحکم ملک بتایا جاتا ہے جہاں انتہا پسندی نے لوگوں کو ایک قومی دھارے میں شامل کرنے سے روک رکھا ہے۔ لیکن اس کتاب کو پڑھنے سے اور لوگوں کے خیالات سے آگاہ ہونے کے بعد ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ پاکستان ایک بہت ہی کثیرالجہت زندگی کے گہرے اور بھرپور ورثے کا امین ملک ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ کتاب ہمیں مختلف چہروں، آوازوں اور جگہوں کے ذریعے بتاتی ہے کہ انسان کتنے اچھے کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
پاکستان کے سابق پارلیمانی رکن، اصفان یار بھنڈارا نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ کتاب دنیا کو یاد دلاتی ہے کہ پاکستان گرونانک، بدھا، مہاویرا، رگودا، اور مہابھارتا کی سرزمین ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتوں نے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی جدوجہد آزادی کی بھرپور حمایت کی۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ہم نے ان کے اس پیغام کو بھلا دیا جس کے تحت پاکستان میں بسنے والے تمام لوگ مساوی حقوق اور بلا امتیاز زندگی گزارتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ڈاکٹر آمنہ کی یہ کتاب لوگوں کے ذہنوں اور دلوں کو کھولے گی، تاکہ تمام پاکستانی یکساں حیثیت سے آباد ہوں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ موجودہ امتیازی سلوک اور دھمکی آمیز حالات کے مقابلے میں کیا پاکستان کی اقلیتیں ایک بہتر مستقبل حاصل کرسکیں گی، تو ڈاکٹر آمنہ نے کہا کہ اگر پاکستانی قائداعظم کی تعلیمات پر عمل کریں اور تعلیم اور بھائی چارے کو فروغ دیں، تو پاکستان میں بسنے والے تمام لوگ بلا امتیاز اور مساوی حقوق کے ساتھ ایک بہتر زندگی گزار سکتے ہیں۔
مصنفہ آمنہ ہوتی، جن کے والد پروفیسر اکبر احمد اور والدہ دونوں ہی خیبر پختونخوا سے تعلق رکھتے ہیں، کہتی ہیں کہ پاکستان کے لوگ مختلف زبانوں ثقافتوں کے امین ہیں، لیکن یہ تمام لوگ بلا تفریق اس کے ہیرے جواہرات بھی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ پاکستان کے مختلف برادریوں سے ملنے کے بعد ان کے لئے سب سے زیادہ خوشگوار بات یہ سامنے آئی کہ تمام لوگ قائد اعظم کی تعلیمات کی روشنی میں بقائے باہمی پر یقین رکھتے ہیں اور قومی سطح پر اس بات کا احساس بڑھ رہا ہے۔