کابل میں مقناطیسی بم سے منی بس میں دھماکہ، متعدد افراد ہلاک و زخمی

  • کابل کے دہشتِ برچی کے علاقے میں ایک منی بس میں دھماکہ ہوا ہے۔
  • رپورٹس کے مطابق دھماکے میں مقناطیس سے چپکنے والے بم کا استعمال کیا گیا ہے۔
  • حکام نے ایک شخص کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے۔
  • زخمی ہونے والے 11 افراد میں خواتین بھی شامل ہیں۔ ایک زخمی کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔
  • جس علاقے میں دھماکہ ہوا ہے یہاں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے اہلِ تشیع افراد کی اکثریت ہے۔
  • دھماکے کی ذمہ داری کسی گروہ یا تنظیم نے قبول نہیں کی۔

افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان نے تصدیق کی ہے کہ کابل میں ہونے والے بم دھماکے میں ایک شخص ہلاک اور 11 زخمی ہوئے ہیں۔

ملک کے دارالحکومت میں اتوار کو ہونے والے دھماکے میں جانی نقصان کی تصدیق کابل پولیس کے ترجمان خالد زدران نے کی ہے۔

پولیس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ دھماکہ کابل کے مغربی علاقے دشتِ برچی میں ہوا ہے۔

کابل کے اس مغربی علاقے میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے اہلِ تشیع افراد کی اکثریت آباد ہے۔

کابل میں جنگ سے متاثرہ غریب لوگوں کو امداد فراہم کرنے والے ایک بین الاقوامی ادارے نے رپورٹ دی ہے کہ ایک منی بس کے نیچے مقناطیس سے چپکنے والا بم نصب کیا گیا۔

سوشل میڈیا پر ایک بیان میں اس تنظیم کا کہنا تھا کہ اس کے طبی مرکز میں آٹھ زخمی افراد کو لایا گیا جن میں تین خواتین شامل تھیں۔ ان زخمیوں میں سے ایک کی حالت تشویش ناک ہے۔

اس دھماکے کی ذمہ داری فوری طور پر کسی بھی تنظیم یا گروہ نے قبول نہیں کی۔

البتہ بین الاقوامی شدت پسند تنظیم داعش کی افغانستان میں شاخ کو اس کا ذمے دار سمجھا جا رہا ہے۔ افغانستان میں متحرک شدت پسند تنظیم کو داعش خراسان کا نام دیا جاتا ہے۔

حالیہ عرصے میں افغانستان بھر میں اہلِ تشیع برادری پر ہونے والے حملوں کی ذمہ داری داعش خراسان تسلیم کرتی رہی ہے۔ ان میں دہشتِ برچی میں ہونے والی کارروائیاں بھی شامل ہیں۔

کابل میں دھماکہ ایک ایسے موقع پر ہوا ہے جب ملک میں 2021 سے برسرِ اقتدار طالبان نے 14 اگست کو امریکہ اور بین الاقوامی افواج کے خلاف ’یومِ فتح‘ منانے اور عام تعطیل کا اعلان کیا ہے۔

SEE ALSO: واشنگٹن کا افغان طالبان سے تین امریکی شہریوں کی رہائی کا مطالبہ

طالبان لگ بھگ 20 برس بعد 15 اگست 2021 کو کابل میں ایک بار پھر اس وقت برسرِ اقتدار آئے تھے جب اس کو امریکہ کی حمایت سے افغانستان میں قائم اشرف غنی کی حکومت کی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا اور امریکہ کے ساتھ ساتھ اس کے اتحادی ممالک کی افواج دو دہائیوں تک جنگ لڑنے کے بعد ملک سے انخلا کر رہی تھیں۔

طالبان کے اقتدار تک پہنچنے کے بعد گزشتہ تین برس میں انہیں کسی بھی قسم کی بڑی مسلح مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔

امریکہ اور اقوامِ متحدہ متنبہ کرتے رہے ہیں کہ افغانستان کی داعش خراسان کی جانب سے خطے میں بڑی دہشت گردی کا اندیشہ موجود تھے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دو دن قبل ہفتے کو ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ دعوے بے بنیاد اور پروپیگنڈے پر مبنی ہیں۔

SEE ALSO: امریکہ کا افغانستان کو دہشت گردی کا لانچنگ پیڈ بننے سے روکنے کا عزم

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ طالبان کے انسدادِ دہشت گردی آپریشن نے داعش کو نمایاں طور پر کمزور کر دیا ہے۔

ان کے بقول طالبان کی حکومت کی گرفت افغانستان کے تمام علاقوں سے مضبوطی کے ساتھ برقرار ہے۔