امریکی شہر نیویارک کے تجارتی مرکز مین ہیٹن میں 33 سالہ فہیم صالح نامی ایک نوجوان کو اسی کے فلیٹ میں قتل کر کے اُس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے ہیں۔
فہیم کی لاش اُن کی بہن کو منگل کی سہ پہر تقریباً ساڑھے تین بجے ملی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ فہیم کی بہن فون کا جواب نہ ملنے پر پریشان ہو کر انہیں دیکھنے اُن کے فلیٹ پر آئی تھیں۔
پولیس کے مطابق فہیم کی لاش کا سر، ہاتھ اور ٹانگیں الگ الگ ملی ہیں جنہیں قاتل نے تھیلوں میں بند کر دیا تھا۔
پولیس کو فہیم کی لاش کے قریب سے ایک الیکٹرک آرا بھی ملا ہے جس کے بارے میں پولیس کو خدشہ ہے کہ اسی کے ذریعے فہیم کی لاش کے ٹکڑے کیے گئے۔
واقعے کی تحقیقات جاری ہیں اور پولیس نے قتل کے محرکات کے حوالے سے تاحال کوئی تفصیلات جاری نہیں کی ہیں۔
We are deeply saddened to inform you about the sudden and tragic loss of our founder and CEO, Fahim Saleh. Fahim was a great leader, inspiration and positive light for all of us.
— Gokada - We do delivery now (@GokadaNG) July 15, 2020
نیو یارک پولیس حکام نے عمارت میں لگے کیمروں سے فوٹیج حاصل کرلی ہے جس کے مطابق سیاہ رنگ کے سوٹ میں ملبوس اور سیاہ رنگ کا ماسک پہنے ایک شخص کو منگل کو فہیم صالح کے اپارٹمنٹ کی لفٹ میں سوار ہوتے دیکھا جاسکتا ہے۔
پولیس حکام کے مطابق اپارٹمنٹ بلڈنگ کی لفٹ کا دروازہ فہیم کے فلیٹ میں ہی کھلتا تھا جس کے ذریعے اس شخص نے اپارٹمنٹ میں داخل ہو کر فہیم صالح پر حملہ کیا۔
فہیم صالح کون تھے؟
فہیم صالح کے والدین بنگلہ دیشی نژاد تارکینِ وطن تھے۔ فہیم نے پاکستان میں چلنے والی 'بائیکیا' کی سروس کی طرز پر نائیجیریا، بنگلہ دیش اور نیپال میں موٹر سائیکل سروسز متعارف کرائی تھیں جو ان ملکوں میں ہزاروں بے روزگار نوجوانوں کے روزگار کا سبب بنی تھیں۔
ان کے اسٹارٹ اپ کی خاص بات موٹر سائیکل چلانے والے نوجوانوں کو ٹیکنالوجی کی تربیت دینا تھا جس کے نتیجے میں ان کی کمپنی کے مطابق سیکڑوں نوجوان آگے چل کر آئی ٹی کی فیلڈ سے منسلک ہوئے۔
نائیجیریا میں کام کرنے والی فہیم کی کمپنی 'گوکاڈا' نے 800 نوجوانوں کو آسان قسطوں پر موٹر سائیکلیں بھی فراہم کیں۔ اس منصوبے پر 50 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی۔ لیکن حال ہی میں نائیجیریا کے دارالحکومت لاگوس کی بلدیہ نے ٹیکسی ڈرائیورز کے دباؤ میں آکر 'گوکاڈا' ہر پابندی لگا دی تھی۔
سن 2017 میں فہیم صالح نے بنگلہ دیش میں بھی موٹر سائیکل سروس شروع کی تھی جس کا کاروباری حجم کچھ ہی عرصے میں 10 کروڑ ڈالر تک جا پہنچا تھا۔
اس دوران کئی ہزار نوجوانوں کے پاس اپنی موٹر سائیکلیں آ گئیں جس سے روزگار کے ساتھ ڈھاکہ جیسے گنجان آباد شہر میں آمد و رفت کسی حد تک آسان ہو گئی تھی۔
فہیم صالح نے دورانِ تعلیم ایک ویب سائٹ پرینک ڈائل ڈاٹ کام بنائی تھی جس سے انہیں مختصر مدت میں 10 لاکھ ڈالر سے زیادہ کی آمدنی ہوئی تھی۔ ایک سرمایہ کار کمپنی ایڈونچر کیپیٹل بھی ان کی ملکیت تھی۔
مقامی رپورٹس کے مطابق فہیم صالح کا قتل جس فلیٹ میں ہوا وہ انہوں نے حال ہی میں 22 لاکھ ڈالر میں خریدا تھا۔