بی این پی مینگل کا حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان

فائل فوٹو

بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔

پاکستان کے ایوانِ زیریں میں بدھ کو اظہار خیال کرتے ہوئے اختر مینگل نے کہا کہ وہ آج باضابطہ طور پر حکومتی اتحاد سے الگ ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "ہم نے اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، وزیرِ اعظم اور صدر کے انتخاب کے موقع پر حکومت کا ساتھ دیا۔ اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود گزشتہ بجٹ میں ساتھ دیا لیکن وفاقی حکومت نے ہمیں کیا دیا؟"

اختر مینگل نے حکومتی اتحاد سے نکلنے کا اعلان ایسے موقع پر کیا ہے جب تحریک انصاف کی حکومت کو ایوان سے بجٹ منظور کرانے کا چیلنج درپیش ہے۔

بی این پی مینگل نے بجٹ اجلاس میں حکومت کو ووٹ نہ دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

سیاسی تجزیہ کار اور پارلیمانی ماہرین کا خیال ہے کہ بی این پی کا حکومت کی حمایت سے دست بردار ہونا بجٹ منظوری کے علاوہ دیگر قانون سازی میں بھی حکومت کی مشکلات میں اضافہ کر سکتا ہے۔

سردار اختر مینگل کی جماعت بی این پی مینگل نے اپنے چھ مطالبات کی بنیاد پر وزارتِ عظمیٰ اور اسپیکر قومی اسمبلی کے انتخاب میں تحریک انصاف کے امیدواروں کو ووٹ دیے تھے۔ تاہم یہ باقاعدہ طور پر حکومت میں شامل نہیں ہوئے تھے اور آزاد اراکین کی نشستوں پر بیٹھتے تھے۔

'تحریک انصاف کی مشروط حمایت کی تھی'

بی این پی مینگل کے مطابق حکومت کی جانب سے تحریری یقین دہانیوں کے باوجود وعدوں پر عمل نہیں ہوا جس پر وہ نالاں ہیں اور اب باقاعدہ طور پر اپوزیشن اتحاد میں شامل ہو رہے ہیں۔

بی این پی مینگل کے سیکرٹری جنرل سینیٹر جہاں زیب جمال دینی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کے ساتھ حکومت سازی میں تعاون اپنے چھ نکات پر عمل درآمد کی یقین دہانی پر کیا تھا جن میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے حکومت کی مشروط حمایت کی تھی جسے جاری رکھنے سے اب قاصر ہیں۔

دوسری جانب حزب اختلاف بھی بجٹ منظوری میں حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہے اور اس ضمن میں پیپلز پارٹی نے کل جماعتی کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔

یاد رہے کہ بجٹ اگرچہ سادہ اکثریت سے منظور ہوتا ہے لیکن معمولی عددی اکثریت رکھنے والی حکومت اگر بجٹ منظوری کے دن اپنی اکثریت ثابت نہ کر پائے تو وہ حکومت کرنے کا اخلاقی جواز کھو بیٹھتی ہے۔

بجٹ منظوری کے دوران حکومت اپنے اراکین کی ایوان میں موجودگی کو پابند نہ رکھ سکی اور اپوزیشن نے اپنی اکثریت ثابت کر دی تو تحریک انصاف کو سبکی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

قومی اسمبلی میں نمبر گیم

حکومت اور اس کے اتحادیوں کی قومی اسمبلی میں عددی اکثریت کا جائزہ لیں تو 156 نشستیں رکھنے والی تحریک انصاف کو متحدہ قومی موومنٹ کے سات ارکان، پاکستان مسلم لیگ (ق) اور بلوچستان عوامی پارٹی کے پانچ، پانچ ارکان کے علاوہ گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے تین، جمہوری وطن پارٹی اور عوامی مسلم لیگ کے ایک، ایک رکن کی حمایت حاصل ہے۔

172 کی عددی اکثریت کے ایوان میں 178 اراکین کی حمایت رکھنے والی تحریک انصاف کو اگرچہ بظاہر کوئی بڑا خطرہ لاحق نہیں ہے تاہم بجٹ منظوری سمیت ہر قانون سازی کے لیے حکومتی جماعت کو ایوان میں اکثریت ثابت کرنا ہو گی۔

پارلیمانی ماہرین کہتے ہیں کہ ایسے حالات میں تحریک انصاف کے لیے ایوان کو چلانا اور اپوزیشن کی حمایت کے بغیر قانون سازی کرنا مشکل ہو گا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ایسی صورت حال میں حکومت اتحادی جماعتوں کی ناراضگی مول نہیں لے سکتی اور اسے عددی اکثریت برقرار رکھنے کے لیے اپنی جماعت کے اراکین کی ایوان میں سرگرم شمولیت یقینی بنانا ہو گی۔