خیبر پختونخوا کے دور افتادہ پہاڑی ضلعے چترال سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے توہینِ مذہب کے الزام میں عمر قید اور تین لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنادی ہے۔
چترال شہر کے نواحی گائوں دنین سے تعلق رکھنے والے ایک شخص محمد امین کو دو مئی 2017ء کو مقامی لوگوں کی شکایت پر چترال پولیس نے قرآن پاک کے اوراق کی بے حرمتی کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور بعد میں ملزم کے خلاف توہینِ مذہب کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
تفتیش کی تکمیل پر ملزم محمد امین کے خلاف سوات کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں مقدمے کی سماعت جاری تھی جس کی تکمیل پر بدھ کو عدالت کے جج محمد عارف خان نے ملزم کو عمر قید اور تین لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔
چترال کے ایک مقامی صحافی نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ مقامی لوگوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ملزم محمد امین اس جگہ گندگی پھیلا رہا تھا جہاں پر قرآن پاک کے پرانے اوراق جمع کیے گئے تھے۔
صحافی کے مطابق لوگوں کے بار بار منع کرنے کے باوجود ملزم باز نہ آیا تو انہوں نے قریبی پولیس اسٹیشن میں رپورٹ درج کرادی تھی۔
انسدادِ دہشت گردی عدالت سے منسلک ایک سرکاری وکیل نے وی او اے کو بتایا ہے کہ دورانِ سماعت ملزم کی ذہنی اور جسمانی کیفیت صحیح تھی اور ملزم نے از خود اپنی صفائی میں استغاثہ اور گواہوں سے جرح کی تھی۔
سرکاری وکیل کے مطابق دورانِ سماعت ملزم نے مدعی پر جو گائوں کی کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں، بدنیتی کے الزامات لگائے تھے لیکن ملزم ان الزامات کو ثابت کرنے میں ناکام رہا تھا۔ اس مقدمے میں کوئی وکیلِ صفائی نہیں تھا اور ملزم نے خود اپنی صفائی میں عدالت کے روبرو دلائل دیے تھے۔
پاکستان میں توہینِ مذہب سے متعلق قانون پر کئی حلقے معترض رہے ہیں جن کا اصرار ہے کہ اس قانون کو الزام لگانے والے انتقامی کارروائیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اس قانون کا غلط استعمال روکنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔