پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے حزب اختلاف کے رہنماوؑں کو دعوت افطار پر مدعو کرنے پر حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں میں لفظی جنگ تیز ہو گئی ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے اس دعوت کو منتخب جمہوری حکومت کے خلاف سازش قرار دیا ہے جبکہ اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن رہنما صرف دعوت افطار پر جمع ہو رہے ہیں۔
بلاول بھٹو کی دعوت پر سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز بھی خصوصی طور پر شرکت کر رہی ہیں جنہیں بلاول بھٹو نے خود فون کر کے شرکت کی دعوت دی تھی۔
سیاسی حلقوں کی جانب سے مریم نواز اور بلاول بھٹو کی پہلی سیاسی ملاقات کو مستقبل کے سیاسی منظر نامے کے تناظر میں اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
بلاول بھٹو رواں سال مارچ میں سابق وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کے لئے کوٹ لکھپت جیل بھی گئے تھے جس کے بعد سے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی قربتیں مزید بڑھ گئی ہیں۔
مریم نواز نے ٹویٹر کے زریعے بلاول بھٹو کا شکریہ ادا کیا تھا جس پر بلاول بھٹو نے نواز شریف کی جلد صحت یابی کی دعا کی تھی۔
بلاول بھٹو نے دیگر اپوزیشن رہنماوؑں کو بھی خود فون کر کے دعوت دی تھی جن میں عوامی نیشنل پارٹی کے اسفندیار ولی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی، جمعیت علماء اسلام (ف) کے مولانا فضل الرحمان، قومی وطن پارٹی کے آفتاب شیرپاؤ اور جماعت اسلامی کے سراج الحق شامل ہیں۔ عمران خان کو ووٹ دینے والے بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ اختر مینگل کو بھی افطار پر مدعو کیا گیا ہے۔
عام انتخابات کے بعد حزب اختلاف کی قیادت پہلی بار ایک چھت تلے جمع ہو رہی ہے جس کو سیاسی مبصرین عید کے بعد حکومت مخالف تحریک کے لئے اہم پیش رفت گردانتے ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق ملک کی بگڑتی معاشی صورتحال اور مہنگائی نے حذب اختلاف کی جماعتوں کو ایک ہی میز پر جمع ہونے پر مجبور کیا ہے۔ تاہم دیکھنا ہو گا کہ کیا سیاسی قیادت حکومت مخالف تحریک کے معاملے پر اتفاق رائے پیدا کر سکتی ہے یا نہیں۔
خیال رہے کہ حزب اختلاف کی مختلف سیاسی جماعتیں عید کے بعد حکومت مخالف تحریک چلانے کے لئے پر تول رہی ہیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی پارٹی قیادت کو گرین سگنل دے چکے ہیں جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی عید کے بعد تحریک چلانے کا عندیہ دیا ہے۔
حکومتی جماعت کے سب سے بڑے ناقد مولانا فضل الرحمن ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو حکومت کے خلاف متحرک کرنے کی متعدد کوششیں کر چکے ہیں۔ وہ عید کے بعد اسلام آباد کو لاک ڈاوؑن کرنے کی دھمکی بھی دے چکے ہیں جبکہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بھی حکومت کے خلاف سخت بیانات دے رہے ہیں۔
بلاول بھٹو کی افطار دعوت کو وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے منتخب جمہوری حکومت کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔ ٹوئیٹر پر ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’رمضان کا مقدس مہینہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا حسین امتزاج ہوتا ہے۔ تاہم بد قسمتی سے اپوزیشن جماعتیں اس بابرکت مہینے میں افطاریوں کی آڑ میں ذاتی، سیاسی اور کاروباری مفادات کے تحفظ میں مصروف عمل ہیں۔‘
فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن رہنماوؑں کو اپنی دولت اور اولاد کے سیاسی مستقبل کی فکر ہے۔ انہیں عوامی مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات سینٹر مولا بخش چانڈیو کہتے ہیں کہ خوف زدہ حکمرانوں کو افطار پارٹی سے بھی ڈر لگنے لگا ہے اور یہ شکست زدہ زہنیت کی عکاسی ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما اور صوبائی مشیر اطلاعات سندھ مرتضی وہاب کہتے ہیں کہ انہیں سمجھ نہیں آ رہا کہ بلاول بھٹو کے افطار سے حکومت کو پریشانی کیوں لاحق ہو گئی ہے جبکہ افطار اسلامی فریضہ ہے اور ہر سال سیاسی رہنما ایک دوسرے کو افطار پر مدعو کرتے ہیں۔