|
امریکی صدر جو بائیڈن اور 17 دوسرے ملکوں کے رہنما،جن کے شہریوں کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ حماس کی حراست میں ہیں، عسکریت پسند گروپ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے ایک مجوزہ معاہدے کو قبول کرے اور یرغمالوں کو فوری طور پر رہا کرے۔
جمعرات کو وائٹ ہاؤس سے جاری کردہ ایک بیان میں انہوں نے کہاےکہ پیش کیا گیا معاہدہ "غزہ میں فوری اور طویل جنگ بندی کا باعث بنے گا ،جس سے پورے غزہ میں انسانی ہمدردی کی اضافی ضروری امداد کی فراہمی میں آسانی پیدا ہوگی، اور جو لڑائیوں کے مستند خاتمے کا سبب بنے گا۔"
SEE ALSO: حماس اسرائیل کے ساتھ غزہ جنگ بندی کی شرائط قبول کرے: امریکہبیان میں کہا گیا ہے کہ "غزہ کے شہری اپنے گھروں اور اپنی زمینوں پر واپس جانے سے پہلے پناہ گاہوں اور انسانی ضروریات کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے تیاریاں کر سکیں گے ۔
امریکہ کے علاوہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، کینیڈا، ، ڈنمارک، اور اسپین سمیت اس بیان میں ش 17 ملک شامل ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینئر عہدے دار نے جمعرات کو ایک بریفنگ میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ حماس نے ایک مجوزہ معاہدے کو مسترد کر دیا ہے جس کے تحت خواتین، زخمیوں، بوڑھوں اور بیمار یرغمالوں کی رہائی کے بدلے غزہ میں فوری طور پر جنگ بندی کی جائے گی۔
تاہم، انہوں نے کہا کہ گروپ کی طرف سے ایسے اشارے ملے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب بھی پیشکش پر غور کر رہے ہیں۔
SEE ALSO: برطانیہ اور جرمنی کا حماس سے یرغمالوں کی رہائی کا مطالبہمختلف رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حماس مکمل جنگ بندی، غزہ سے اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے فوجیوں کی مکمل واپسی ، انسانی ہمدردی کی امداد میں اضافے اور شمال میں غزہ کے بے گھر شہریوں کی مکمل واپسی کا مطالبہ کر رہی ہے۔
گروپ کا موقف ہے کہ اسرائیل غزہ کے باشندوں کو بلا روک ٹوک طریقے سے گھر جانے کی اجازت نہیں دے رہا ہے کیونکہ اسرائیل کی ڈیفنس فورسز کے ارکان وسطی غزہ سے واپس نہیں گئے ہیں۔
حماس اسرائیل کے ساتھ پانچ سال یا زیادہ عرصے کی جنگ بندی کی خواہاں ہے۔
اسی اثنا میں فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے اعلیٰ سیاسی رہنما خلیل الحیہ نے بدھ کوکہا ہے کہ حماس اسرائیل کے ساتھ پانچ سال یا اس سے زیادہ عرصے کی جنگ بندی پر راضی ہونے کی خواہاں ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو دیے گئے ایک انٹرویو میں خلیل الحیہ نے کہا کہ اگر 1967 سے پہلے کی سرحدوں کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم ہوتی ہے تو حماس ہتھیار ڈال دے گی اور ایک سیاسی جماعت میں تبدیل ہو جائے گی۔
حماس کے اعلیٰ سیاسی رہنما کی جانب سے یہ انٹرویو بدھ کو استنبول میں دیا گیا ہے اور یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ میں جنگ بندی کے لیے مہینوں سے جاری مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔
خلیل الحیہ حماس کے اعلیٰ عہدے دار ہیں جو جنگ بندی اور یرغمالوں کے تبادلے کے لیے مذاکراتی عمل میں حماس کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ ان کا لہجہ کبھی مفاہمانہ تو کبھی جارحانہ ہوتا ہے۔
خلیل الحیہ کی جانب سے یہ تجویز کہ حماس غیر مسلح ہو جائے گی، بظاہر ایک رعایت معلوم ہوتی ہے کیوں کہ عسکریت پسند گروپ اسرائیل کو تباہ کرنے کے لیے مصروفِ عمل ہے۔
اس معاملے پر اسرائیل یا فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
SEE ALSO: غزہ جنگ احتجاج: طلبہ کا پہلی ترمیم کا حق قبول مگر یہود یا اسلام مخالف بیانات ناقابلِ قبول ہیں، محکمۂ خارجہفلسطینی اتھارٹی مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ میں ایک آزاد ریاست کے قیام کی امید رکھتی ہے۔ یہ وہی علاقے ہیں جن پر 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے قبضہ کر لیا تھا۔
عالمی برادری بھی دو ریاستی حل کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔ البتہ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کی سخت گیر حکومت اسے مسترد کرتی ہے۔
غزہ میں جنگ تقریباً سات ماہ سے جاری ہے اور جنگ بندی کے مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ جنگ کا آغاز سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے سے ہوا جس میں اسرائیلی حکام کے بقول 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ تقریباً 250 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔
اس حملے کے بعد غزہ میں اسرائیل کی فضائی اور زمینی کارروائی شروع ہوئی جس میں اب تک غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 34 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس جنگ میں غزہ کی تقریباً 80 فی صد آبادی بے گھر ہو گئی ہے۔