بنگلہ دیشی پولیس نے شیر اسمگل کرنے کی کوشش ناکام بنا دی

پولیس کو شیر اور چیتے کے بچے مغربی شہر جیسور میں ایک ناکے پر اس وقت ملے جب انہوں نے ایک مشکوک کار کو روکا۔ ان بچوں کو لکڑی کے صندوقوں میں بند کیا گیا تھا۔

بنگلہ دیش کی پولیس نے پیر کے روز اسمگلنگ کی کوشش ناکام بناتے ہوئے چیتے اور شیر کے چار بچے برآمد کر کے دو افراد کو حراست میں لے لیا، جو انہیں بھارت لے جا رہے تھے۔

پولیس نے کہا ہے کہ وہ اس بارے میں تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا شیروں کے بچوں کو سندر بن کے جنگلات سے پکڑا گیا، جو دنیا بھر میں انسان کا بنایا ہوا سب سے بڑا جنگل ہے اور جہاں ایک نمایاں تعداد میں بنگالی نسل کے چیتے موجود ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ شیر کے بچوں کہاں سے پکڑا گیا تھا۔

پولیس کو شیر اور چیتے کے بچے مغربی شہر جیسور میں ایک ناکے پر اس وقت ملے جب انہوں نے ایک مشکوک کار کو روکا۔ ان بچوں کو لکڑی کے صندوقوں میں بند کیا گیا تھا۔

ضلعی پولیس کے سربراہ انصارالرحمن نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ہم نے اسمگلنگ کی کوشش کے الزام میں دو افراد کو پکڑا ہے۔ وہ دونوں جانوروں کی اسمگلنگ کرتے ہیں اور انہیں بھارتی جانب ایک سرحدی قصبے شیر شاہ میں ایک اور شخص کے حوالے کر دیتے ہیں۔

بنگلہ دیش میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے سن 2010 سے نئے قوانین پر عمل ہو رہا ہے، لیکن ان کی غیر قانونی تجارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

سن 2012 میں بنگلہ دیش کی پولیس نے ڈھاکہ میں ایک چھاپے کے دوران بنگالی نسل کے تین شیر بازیاب کیے تھے۔

دس ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے جنگل سندر بن میں سن 2015 کے ایک جائزے کے مطابق شیروں کی تعد گھٹ کر ایک سو سے کم تھی جب کہ تقریباً دس برس پہلے یہ تعداد 440 کے لگ بھگ تھی۔ دس سال کے عرصے میں شیروں کی تعداد میں بڑے پیمانے پر کمی نے جنگلی حیات کے محافظوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

شیروں کے تحفظ کے لیے پولیس نے کچھ عرصہ پہلے سندر بن کے علاقے میں لوگوں کے پاس موجود اسلحہ واپس لینے کی مہم شروع کی تھی، جسے انہوں نے ایک بڑی کامیابی سے تعبیر کیا تھا۔