چین: بیلٹ اور روڈ سربراہ کانفرنس میں 37 ملکوں کی شرکت

چین کے صدر ژی جن پنگ اور ان کی اہلیہ بیلٹ اینڈ روڈ سربراہ کانفرنس میں شامل عالمی لیڈروں کے ساتھ ۔ 26 اپریل 2019

چین اپنے’بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو‘ پروگرام کے لیے 37 ملکوں کے رہنماؤں کی میزبانی کر رہا ہے۔ یہ ایک بڑے پیمانے کا ترقیاتی پروگرام ہے جس میں انفرا اسٹرکچر کے پراجیکٹس کے لیے ایک ٹریلین ڈالرز سے زیادہ کی رقم کی توقع ہے۔

امریکہ نے ملکوں کو انتباہ کیا ہے کہ ان پراجیکٹس کا بنیادی مقصد چین کی معیشت کو ترقی دینا ہے اور چین کی مالیاتی شرائط سے اس سے فنڈز لینے والے ملکوں کی معیشتوں کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

دنیا بھر سے رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد بیجنگ میں اس سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچی جس سے چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا اظہار ہوا۔ دنیا اس کانفرنس میں بڑی تعداد میں مختلف ملکوں کے لیڈروں کی شرکت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چین تیز رفتار ریل گاڑیوں، جدید بندر گاہوں اور نئی شاہراہوں کی پیش کش کر رہا ہے۔

بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے جان تھارنٹن چائنا سینٹر کے ڈائریکٹر چینگ لی کہتے ہیں کہ افریقہ، جنوبی امریکہ، مشرق وسطیٰ اور کچھ یورپی ملکوں میں چین کے پروگرام کو ایک بڑا موقع سمجھا جا رہا ہے کیوں کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشییٹیو یا بی آر آئی بنیادی طور پر انفرا اسٹرکچر کی ترقی پر زور دیتا ہے، جس نے سب سے پہلے خود چین کی بھی اقتصادی ترقی میں مدد کی ہے۔

تاہم امریکہ نے بیجنگ پر دنیا کے ملکوں کو قرض کے جال میں پھنسانے کی کوشش کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ چین سے فنڈز لینے والے ملک مشکل معاہدوں میں پھنس سکتے ہیں۔

بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو متعدد ترقی پذیر ملکوں کو ٹرینوں، سڑکوں اور بندر گاہوں کے لیے فنڈز فراہم کر چکا ہے اور اس نے کچھ ملکوں کو چینی قرضوں کی ادائیگی کے مسائل میں بھی الجھا دیا ہے۔ جس کی وجہ سے سے پروگرام کی بڑی لاگت اور شفافیت کے فقدان کے بارے میں خدشات کو مزید ہوا مل رہی ہے۔

چین کے صدر ژی جن پنگ اور ان کی اہلیہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ۔ 26 اپریل 2019

امریکن انٹر پرائز انسٹی ٹیوٹ کے زیگ کوپر کہتے ہیں کہ فنڈز وصول کرنے والے کچھ ملکوں کو یہ فکر ہے کہ یہ فنڈنگ دراصل ان کی اپنی کمپنیوں سے زیادہ چینی کمپنیوں کی مدد کر ہی ہے۔ ممکن ہے کچھ واقعات میں یہ بدعنوانی یا ماحول کو نقصان پہنچانے کی حوصلہ افزائی کر رہی ہو اور اس لیے ہم دیکھ رہے ہیں کہ اب وہ اس سے کچھ پیچھے ہٹا جا رہا ہے۔

چین اس سال کچھ پراجیکٹس کی لاگت میں کمی، ماحول کے تحفظ کے وعدے اور جاپان جیسے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی پیش کش کے ساتھ اپنے انداز میں تبدیلی لا رہا ہے۔

ون بیلٹ ون روڈ انٹرنیشنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے صدر چن چونفنگ کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ بی آر آئی ضرورت مند ملکوں کو بہت زیادہ مدد اور ترقی فراہم کر سکتا ہے۔

بی آر آئی جس کا مقصد ایشیا کو یورپ اورافریقہ سے مربوط کرنا ہے، مسلسل کامیابی حاصل کر رہا ہے۔

مغرب کے انتباہوں کے باوجود، اٹلی حال ہی اس پروگرام میں شامل ہونے والا پہلا بڑا یورپی ملک بن گیا ہے۔ جب کہ سوئٹزرلینڈ لینڈ بھی ایسا ہی کر رہا ہے۔ بیجنگ کو امید ہے کہ وہ مزید ملکوں کو بھی اپنی جانب متوجہ کر سکتا ہے۔