منگل کو بیروت میں ایک خوفناک دھماکے کے بعد ہوش میں آنے والوں میں سے بیشتر کا دل اس خدشے سے دھڑکا کہ کیا کوئی جنگ دوبارہ شروع ہو گئی؟ کیا کوئی بم گرا؟ کھڑکیاں، شیشے، دروازے کیوں ٹوٹ گئے؟ عمارتیں کیوں لرز اٹھیں؟
ان سب سوالوں کا جواب ملنے تک لبنان کے اکثر لوگوں کی نظر میں خانہ جنگی کے مناظر گھومنے لگے۔ 1975 سے 1999 تک بیروت کی گلیوں اور بازاروں میں اس لڑائی میں ایک لاکھ بیس ہزار کے لگ بھگ لبنانی ہلاک ہوئے۔ ہزاروں ملک کے اندر بے گھر اور لاکھوں ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
مشرقِ وسطیٰ کا 'پیرس' کھنڈر بنتا چلا گیا۔ رہی سہی کسر 1980 کی اسرائیل سے لڑائی نے پوری کردی۔ اور پھر 2005 میں سابق وزیر اعظم رفیق حریری کی بم دھماکے میں ہلاکت اور 2006 میں ایک بار پھر اسرائیل کے ساتھ جنگ نے لبنان کو نقصان پہنچایا۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد سے بیروت دنیا میں سیاحت کا مرکز بن گیا تھا۔ اس کی معیشت اتنی پھل پھول رہی تھی کہ اسے مشرقِ وسطیٰ کا پیرس کہا جانے لگا۔
انیس سو پچاس سے 1970 تک کے اوائل کی تصاویر میں بیروت شہر پر تعیش ہوٹلوں اور جدید اور بلندوبالا عمارتوں کا منظر پیش کرتا رہا جو فرانسیسی طرزِ تعمیر کا نمونہ ہیں۔
شہر کے باغات، کیفے اور ریستوران سیاحوں کو کھینچ لاتے تھے۔ سیکڑوں فن کار، فیشن ڈیزائنر اس شہر کو نفیس اور اعلیٰ ذوق کا حامل بنا رہے تھے۔ روشنی، خوشبو اور خوش لباسی اس کے مکینوں کی آسودگی کا پتا دیتی تھی۔
سال 2005 کے بعد سے بیروت اپنی عظمتِ رفتہ کو واپس لانے کے لیے کوشاں ہے۔ لیکن معاشی عدم استحکام، فرقہ ورانہ لڑائی اور علاقائی صورتِ حال کے باعث تاحال ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔
خبریں آرہی تھیں کہ لبنان میں معاشی صورتِ حال اتنی ابتر ہے کہ ملک معاشی طور پر پوری طرح تباہ ہو سکتا ہے۔
آخر اس کی کوئی تو وجہ ہو گی؟ آئی ایم ایف کے سابق عہدے دار اور مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ایڈوائزر ڈاکٹر زبیر اقبال کہتے ہیں کہ لبنان کی پوری معیشت کا دارومدار قرضوں پر ہے۔
اُن کے بقول ملک میں سرمایہ کاری اور دیگر مواقع نہ ہونے کی وجہ سے لوگ بیرونِ ملک نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور اپنا سرمایہ بھی ساتھ لے گئے جب کہ بد عنوانی اور کمزور قیادت نے پہلے سے ہی بدحال معیشت کو تباہی کے قریب پہنچا دیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اور پھر منگل کو گویا بیروت میں ایک مرتبہ پھر قیامت ٹوٹ پڑی جب بندرگاہ پر ذخیرہ کیے گئے دھماکہ خیز مواد میں آگ لگنے سے اتنا زوردار دھماکہ ہوا کہ اس کی آواز میلوں تک سنی گئی۔ حتیٰ کے 150 میل دور قبرص میں بھی اس کی گونج سنائی دی۔
شہر بھر میں کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے، عمارتیں خالی ڈھانچے کا منظر پیش کرنے لگیں۔ آناًفاناً ہزاروں لوگ زخمی اور سو سے زیادہ موت کے منہ میں چلے گئے۔
اطلاعات کے مطابق اب تک تین لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ شہر میں جابجا ملبہ بکھرا ہے۔ سیکڑوں کاریں اور دیگر املاک کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
چوہدری نعمان ظفر امریکہ میں 'ہڈسن انسٹی ٹیوٹ' کے سکالر اور جبیل سعودی عرب میں رسک کنٹرول کنسلٹینسی اور انٹرنیشنل سیکیورٹی سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پوری عرب دنیا میں اس واقعے کے بعد سوگ کی سی کیفیت ہے اور افسوس کا اظہار کیا جارہا ہے۔
اطلاعات کے مطابق 2014 میں 2700 ٹن سے زیادہ ایمونیم نائٹریٹ ایک مال بردار جہاز سے قبضے میں لیے جانے کے بعد بندرگاہ پر ذخیرہ کر دیا گیا تھا۔ روس کی ملکیت مالدیپ میں رجسٹر 'روہسس' نامی یہ جہاز نومبر 2013 میں بیروت کی بندرگاہ پہنچا تھا۔
زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اقرار احمد کا کہنا ہے کہ امونیم نائٹریٹ وہ کیمیکل ہے جو کبھی بھی ذخیرہ نہیں کیا جانا چاہیے۔
اُن کے بقول یہ کیمیکل کھاد بنانے کے کام آتا ہے اور صرف اس وقت استعمال ہوتا ہے جب کھاد بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی اتنی بڑی مقدار کئی برس تک ایک ہی مقام پر رکھنا قطعاً درست نہیں تھا۔
نعمان ظفر کہتے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ ملنے والی سرحد اور حزب اللہ کی موجودگی، ایران اسرائیل تعلقات کی کشیدگی اور حزب اللہ کے لیے ایران کی مبینہ حمایت نے لبنان کو مشرقِ وسطیٰ میں جغرافیائی اور فوجی اہمیت کا حامل بنا دیا ہے۔
نعمان ظفر کے بقول اس ملک میں خرابی اس کی آبادی کے تین دھڑوں میں منقسم ہونے سے پیدا ہوئی ہے ورنہ عرب ممالک اسے ایک اہم ہمسائیہ خیال کرتے ہیں اور اسے کبھی نظر انداز نہیں کر سکتے۔
بیروت میں دھماکہ ایسے وقت ہوا ہے جب مشرقِ وسطیٰ میں دیگر کئی ملکوں کے مابین تنازعات بھی برقرار ہیں۔ شام کی خانہ جنگی ابھی ختم نہیں ہوئی، داعش کی باقیات ابھی موجود ہیں۔
اسرائیل، فلسطینی تنازع کا کوئی حل سامنے نہیں آیا اور بقول ڈاکٹر زبیر اقبال پسِ پردہ عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان کسی سمجھوتے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ ایسے میں اسٹرٹیجک اہمیت کے حامل بیروت میں تباہی پر تشویش ایک قدرتی بات ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان میں ممتاز دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کہتے ہیں کہ ملکی سطح پر دارالحکومت میں تباہی کا ملکی دفاعی فورسز کے مورال پر بہت منفی اثر پڑتا ہے۔ کیوں کہ ایک تو سپلائی لائن ختم ہونے کا خطرہ اور پھر اگر دارالحکومت ہی فعال نہ رہے تو دفاع کس کا کیا جائے گا۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق لبنان کے وزیرِ صحت حماد حسن نے بتایا کہ لوگ ان سے اپنے عزیزوں کا پتا پوچھ رہے ہیں۔ بہت سے لوگ لاپتا ہیں مگر شہر میں بجلی نہیں۔ معلومات جمع کرنے میں دشواری پیش آرہی ہے۔
اُن کے بقول زخمیوں کو اسپتالوں میں جگہ نہیں مل رہی اور بہت سی نرسز اور ڈاکٹر شہر کے ایک اسپتال کو نقصان پہنچنے کے باعث ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔
لبنان میں ریڈ کراس کا کہنا ہے کہ شمالی لبنان، بیکا اور جنوبی لبنان سے تمام ایمبولینسز بیروت روانہ کر دی گئی ہیں تاکہ نہ صرف زخمیوں کو اسپتال پہنچایا جائے بلکہ لاپتا افراد کی تلاش میں بھی مدد دی جائے۔
دفاعی تجزیہ کار امجد شعیب نے دھماکے میں دہشت گردی کے عنصر کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ مگر لبنان میں جنرل سیکیورٹی کے وزیر میجر جنرل عباس ابراہیم نے خبردار کیا ہے کہ اگرچہ کیمیائی ذخیرے کو جان بوجھ کر تباہ کرنے کے امکان کے بارے میں چھان بین ہو رہی ہے مگر اس سے پہلے اسے دہشت گردی سے منسلک کرنے کی قیاس آرائیوں سے گریز کیا جائے۔