طبی ماہرین پچھلے کئی سالوں سے ’باڈی میس انڈکس‘ کے پیمانے کو صحت ِ عامہ کو درپیش مسائل سے بچاؤ کی جانچ کا ایک طریقہ بتاتے چلے آرہے ہیں۔
واشنگٹن —
ایک نئی عالمی تحقیق کے نتائج کے مطابق نارمل وزن رکھنے والے افراد کے مقابلے میں قدرے فربہ افراد میں جلد مرنے کے امکانات نسبتا کم ہوتے ہیں۔
پچھلی دہائی میں شروع کی گئی اس تحقیق میں دنیا بھر سے تیس لاکھ کے قریب لوگ شامل کیے گئے۔ ان تمام نتائج کو بعد میں اکٹھا کرکے انکا جائزہ ریاست میری لینڈ کے ’نیشنل سنٹر فار ہیلتھ سٹیٹسٹکس‘ میں لیا گیا۔ ’نیشنل سنٹر فار ہیلتھ سٹیٹسٹکس‘ امریکی ادارہ برائے تدارک ِ امراض کا ذیلی ادارہ ہے۔
’نیشنل سنٹر فار ہیلتھ سٹیٹسٹکس‘ کے مطابق عام لوگوں کی نسبت قدرے فربہ افراد میں کسی بھی مرض سے جلد مرنے کے امکانات چھ فیصد تک کم ہوتے ہیں۔ لیکن تحقیق دانوں کو اس تحقیق میں یہ بھی معلوم ہوا کہ بہت موٹے افراد میں نارمل وزن کے حامل لوگوں کی نسبت مرنے کے امکانات تیس فیصد زیادہ ہوتے ہیں۔
یہ تحقیق امریکہ، کینیڈا، چین، تائیوان، برازیل، انڈیا اور میکسیکو کے لوگوں پر کی گئی۔
اس تحقیق کی سربراہی کیتھرین فلیگل کر رہی تھیں جو کہتی ہیں کہ انہیں یہ جان کر زیادہ حیرت نہیں ہوئی کہ قدرے موٹے لوگوں میں جلد موت کے امکانات کم ہوتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں، ’’ کیونکہ ہم نے پڑھ رکھا ہے کہ فربہ لوگوں میں مرنے کی شرح عام وزن والے لوگوں کی نسبت زیادہ نہیں۔ لیکن مجھے یہ جان کر یقینا حیرت ہوئی کہ یہ شرح کم ہے‘‘۔
لیکن فلیگل اس بات پر زور دیتی ہیں کہ نارمل وزن کے حامل لوگوں اور قدرے فربہ لوگوں کے درمیان شرح ِ اموات میں فرق بہت کم ہے۔
فلیگل اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے کی گئی تحقیق کے بعد قد اور وزن کے حساب سے جسم میں موجود چربی کا حساب لگانے والے پیمانے ’باڈی میس انڈکس‘ کے نتائج کی درستگی پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
طبی ماہرین پچھلے کئی سالوں سے ’باڈی میس انڈکس‘ کے پیمانے کو صحت ِ عامہ کو درپیش مسائل سے بچاؤ کی جانچ کا ایک طریقہ بتاتے چلے آرہے ہیں۔
سٹیون ہیمسفیلڈ، امریکی ریاست لوزیانا میں ’پننگٹن بائیو میڈیکل ریسرچ سنٹر‘ کے ایگزیکیٹیو ڈائریکٹر ہیں اور کہتے ہیں کہ، ’’ ایسا رجحان ملٹری میں عام دیکھا جاتا ہے۔ جہاں نوجوان مرد اور عورتیں جسمانی طور پر صحتمند ہوتے ہیں لیکن ان کا BMI یا باڈی میس انڈکس تھوڑا زیادہ ہو سکتا ہے۔‘
لیکن ہیمسفیلڈ تنبیہہ کرتے ہیں کہ اس تحقیق کے باوجود وزن کی زیادتی صحت کے لیے درست نہیں اور ذیابیطیس اور دل کے امراض کا باعث بن سکتی ہے۔
پچھلی دہائی میں شروع کی گئی اس تحقیق میں دنیا بھر سے تیس لاکھ کے قریب لوگ شامل کیے گئے۔ ان تمام نتائج کو بعد میں اکٹھا کرکے انکا جائزہ ریاست میری لینڈ کے ’نیشنل سنٹر فار ہیلتھ سٹیٹسٹکس‘ میں لیا گیا۔ ’نیشنل سنٹر فار ہیلتھ سٹیٹسٹکس‘ امریکی ادارہ برائے تدارک ِ امراض کا ذیلی ادارہ ہے۔
’نیشنل سنٹر فار ہیلتھ سٹیٹسٹکس‘ کے مطابق عام لوگوں کی نسبت قدرے فربہ افراد میں کسی بھی مرض سے جلد مرنے کے امکانات چھ فیصد تک کم ہوتے ہیں۔ لیکن تحقیق دانوں کو اس تحقیق میں یہ بھی معلوم ہوا کہ بہت موٹے افراد میں نارمل وزن کے حامل لوگوں کی نسبت مرنے کے امکانات تیس فیصد زیادہ ہوتے ہیں۔
یہ تحقیق امریکہ، کینیڈا، چین، تائیوان، برازیل، انڈیا اور میکسیکو کے لوگوں پر کی گئی۔
اس تحقیق کی سربراہی کیتھرین فلیگل کر رہی تھیں جو کہتی ہیں کہ انہیں یہ جان کر زیادہ حیرت نہیں ہوئی کہ قدرے موٹے لوگوں میں جلد موت کے امکانات کم ہوتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں، ’’ کیونکہ ہم نے پڑھ رکھا ہے کہ فربہ لوگوں میں مرنے کی شرح عام وزن والے لوگوں کی نسبت زیادہ نہیں۔ لیکن مجھے یہ جان کر یقینا حیرت ہوئی کہ یہ شرح کم ہے‘‘۔
لیکن فلیگل اس بات پر زور دیتی ہیں کہ نارمل وزن کے حامل لوگوں اور قدرے فربہ لوگوں کے درمیان شرح ِ اموات میں فرق بہت کم ہے۔
فلیگل اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے کی گئی تحقیق کے بعد قد اور وزن کے حساب سے جسم میں موجود چربی کا حساب لگانے والے پیمانے ’باڈی میس انڈکس‘ کے نتائج کی درستگی پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
طبی ماہرین پچھلے کئی سالوں سے ’باڈی میس انڈکس‘ کے پیمانے کو صحت ِ عامہ کو درپیش مسائل سے بچاؤ کی جانچ کا ایک طریقہ بتاتے چلے آرہے ہیں۔
سٹیون ہیمسفیلڈ، امریکی ریاست لوزیانا میں ’پننگٹن بائیو میڈیکل ریسرچ سنٹر‘ کے ایگزیکیٹیو ڈائریکٹر ہیں اور کہتے ہیں کہ، ’’ ایسا رجحان ملٹری میں عام دیکھا جاتا ہے۔ جہاں نوجوان مرد اور عورتیں جسمانی طور پر صحتمند ہوتے ہیں لیکن ان کا BMI یا باڈی میس انڈکس تھوڑا زیادہ ہو سکتا ہے۔‘
لیکن ہیمسفیلڈ تنبیہہ کرتے ہیں کہ اس تحقیق کے باوجود وزن کی زیادتی صحت کے لیے درست نہیں اور ذیابیطیس اور دل کے امراض کا باعث بن سکتی ہے۔