این اے 120 لاہور، کیا مستقبل کا وزیرِاعظم بھی یہیں سے ہوگا؟

نواز شریف نے اسی حلقے سے جیت کر قومی اسمبلی میں اپنی نشست پکی کی۔ وہ پہلے لیڈر آف دی ہاؤس اور بعد ازاں وزیر اعظم منتخب ہوئے۔

نواز شریف کی وزیر اعظم کے عہدے سے سبکدوشی کے بعد ان کے بھائی اور پنجاب کے موجودہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو مستقبل کا وزیر اعظم بنانے سے متعلق خبروں کے فوری بعد جس حلقے نے خبروں میں سب سے زیادہ جگہ پائی ہے وہ ہے قومی اسمبلی کا حلقہ، این اے 120 لاہور تھری۔

یہ وہ حلقہ ہے جہاں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 17 ستمبر کو ضمنی انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے۔ نواز شریف نے اسی حلقے سے جیت کر قومی اسمبلی میں اپنی نشست پکی کی اور وزیر اعظم منتخب ہوئے۔

اب اسی حلقے سے شہباز شریف کو انتخاب لڑانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو فتح یاب ہونے کی صورت میں 2018 کے انتخابات تک وزیر اعظم رہیں گے۔

حلقہ این اے 120،چند زمینی حقائق

لاہور میں مقیم ابلاغ عامہ کے پروفیسر اور سیاسی تجزیہ نگار محمد زابر سعید بدر نے وی او اے کے نمائندے کو علاقے کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے بتایا ’این اے 120 لاہور تین سن 1985 سے مسلم لیگ ن کا گڑھ رہا ہے۔

بقول اُن کے، ’’گو کہ نواز شریف سبکدوش ہوچکے ہیں، لیکن ٹکسالی، اسلام پورہ، ناصر باغ، موہنی روڈ، مال روڈ، میو اسپتال اور کوپر روڈ سے گزرتے ہوئے اس بات کا قطعی اندازہ نہیں ہوتا کہ وہاں آج بھی ’میاں دے نعرے وجن گے‘، ’شیر ساڈا آوے ہی آوے۔۔‘ اور اسی طرح کے جوشیلے نعرے سنائی دے رہے ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’’نان چھولے کا چھوٹا سا تھڑا ہو یا کوئی ہوٹل یا ریسٹورنٹ لاہوری ناشتہ کرتے وقت بھی لوگ روایتی جذباتی اور جوشیلے انداز میں نواز شریف کی حمایت میں گفتگو کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی حلقے میں ایک دکاندار جمشید بٹ سے میری بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا ’لاہور نواز شریف کا تھا، ہے اور رہے گا۔‘

نون لیگ کے مقابلے میں تحریک انصاف نے ڈاکٹر یاسمین راشد کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے جن کا پنجاب کے موجودہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے براہ راست مقابلہ ہوگا۔

سن 2013 کے انتخابات میں ڈاکٹر یاسمین راشد نےاسی حلقے سے انتخاب لڑا تھا اور الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق 52 ہزار 354 ووٹ حاصل کئے تھے، جبکہ ان کے مقابلے میں نواز شریف نے 91 ہزار 683 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی۔

دوسری جانب، پی پی پی کے زبیر کاردار نے 2605 اور جماعت اسلامی کے حافظ سلمان بٹ نے 953 ووٹ حاصل کیے تھے۔

یہی وہ حلقہ ہے جہاں سے2008 کے انتخابات میں بیگم کلثوم نواز کے قریبی عزیز بلال یاسین نے 65 ہزار 946 ووٹوں سے پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما جہانگیر بدر کو شکست دی تھی۔ جہانگیر بدر صرف 24 ہزار ووٹ حاصل کر سکے تھے۔

سن2002 میں جب پرویز مشرف برسر اقتدار تھے تب بھی ن لیگ کے پرویز ملک نے پی پی پی کے الطاف قریشی کے مقابلے میں 33 ہزار 741 ووٹ سے کامیابی حاصل کی تھی۔

سن1990 میں نواز شریف نےاسی حلقے سے پی ڈی اے کے امیدوار اور بزرگ سیاست دان ائیر مارشل اصغر خان کو مات دی تھی۔

پاکستان کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں موروثی سیاست ابھی تک ختم نہیں ہوئی۔ آج بھی باپ کی جگہ بیٹا اور بھائی کی جگہ بھائی کو قیادت ملنے کی مثالیں جنم لیتی رہتی ہیں۔

شاید یہ حلقہ 17ستمبر کو تاریخ کو ایک مرتبہ پھر دہرائے، لیکن اگر عوام میں سیاسی شعور پیدا ہونے اور کسی نئی پارٹی یا نئی شخصیت کو آزمانے کا خیال علاقہ مکینوں پر غالب آگیا تو پھر نتیجہ کچھ اور بھی ہو سکتا ہے۔ لہذا، عوام کے سیاسی شعور کو جانچنے کے لئے بھی یہ حلقہ آزمائشی ثابت ہوسکتا ہے۔