|
ویب ڈیسک -- امریکی اسکولوں میں طلبہ کے موبائل فون لانے پر پابندی عائد کرنے کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔
گزشتہ دو برس کے دوران کم از کم آٹھ ریاستوں نے ایسی پابندیاں عائد کی ہیں جب کہ متعدد ریاستوں میں ایسی پابندیاں زیرِ غور ہیں۔
زیادہ اسکرین ٹائم کے باعث بچوں کی نفسیات اور دماغی صحت پر پڑنے والے اثرات پر پائے جانے والے تحفظات کے باعث مختلف ریاستوں میں اسکولوں میں موبائل فون لانے پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
اس کے علاوہ اساتذہ کی یہ مسلسل شکایت بھی اس کے اسباب میں شامل ہے کہ موبائل فون ہونے کی صورت میں بچے پوری توجہ سے کلاس میں بیٹھتے اور ان کا دھیان بٹتا رہتا ہے۔
امریکہ کے سرجن جنرل ڈاکٹر ویویک مورتی یہ تجویز دے چکے ہیں کہ سوشل میڈیا پلیٹ فورمز پر بھی کم سن بچوں اور نوجوانوں کی صحت پر اثرات سے متلق وارننگ لیبلز ہونے چاہئیں۔ ان کے مطابق اسکولوں کو چاہیے کہ وہ بچوں کو ’فون فری ٹائم‘ فراہم کریں۔
نیشنل سینٹر فور ایجوکیشن کے مطابق امریکہ کے 77 فی صد اسکولوں کا کہنا ہے کہ غیر تعلیمی مقاصد کے لیے طلبہ کے موبائل لانے پر پابندیاں عائد ہیں۔
تاہم 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق یہ اعداد و شمار گمراہ کُن ہیں کیوں کہ پابندی عائد ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ تمام طلبہ ایسی ہدیات کی پابندی کر رہے ہیں یا سبھی اسکول انہیں نافذ کر رہے ہیں۔
فون فری موومنٹ کی شریک بانی کم وٹمین کا کہنا ہے کہ والدین اور اساتذہ کو پیش آنے والے مسائل کی وجہ سے یہ معاملہ زیادہ توجہ حاصل کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ بڑے شہر میں رہتے ہیں یا کسی قصبے یا دیہات میں آباد ہیں۔
موبائل فون کے استعمال سے تمام بچے یکساں طور پر متاثر ہیں اور انہیں اسکول جانے کے دنوں میں فون اور سوشل میڈیا کے دباؤ سے کم از کم سات گھنٹے کا بریک درکار ہے۔
SEE ALSO: چین میں غیر ملکی موبائل فونز کی فروخت میں کمی کیوں ہو رہی ہے؟کہاں کہاں پابندی ہے؟
امریکہ کی کم از کم آٹھ ریاستوں؛ کیلی فورنیا، فلوریڈا، انڈیانا، لوئزیانا، منی سوٹا، اوہائیو، ساؤتھ کیرولائنا اور ورجینیا میں ایسے اقدامات کیے گئے ہیں جن کے تحت اسکولوں میں موبائل فون لانے پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے یا اس کا استعمال محدود کردیا گیا ہے۔
موبائل فون سے متعلق مختلف ریاستوں میں مختلف نوعیت کے قواعد متعارف کرائے گئے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکہ میں اسکولوں کا بندوبست کسی بھی ریاست کے مخصوص علاقے کی مقامی انتظامیہ کرتی ہے جسے اسکول ڈسٹرکٹ کہا جاتا ہے اور یہ اپنی پالیسی خود ترتیب دیتے ہیں۔
فلوریڈا امریکہ کی پہلی ریاست تھی جہاں اسکولوں میں موبائل فون کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا اور 2023 میں منظور کیے گئے قانون کے مطابق تمام سرکاری اسکولوں کو موبائل فون لانے پر پابندی عائد کرنے اور وائی فائی پر سوشل میڈیا سائٹس کی رسائی روکنے کا پابند کیا گیا تھا۔
سال 2024 میں کیلی فورنیا کی ریاست نے ایک قانون سازی کی تھی جس کے بعد ایک ہزار اسکول ڈسٹرکٹس پر جولائی 2026 تک اپنی اپنی پالیسیز بنانا لازمی کیا گیا ہے۔
کئی ریاستوں نے موبائل فون پر پابندیاں عائد نہیں کی ہیں التبہ وہ اس کے لیے اسکول ڈسٹرکٹس کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں۔
ریاست آرکنسا کے گورنر نے گزشتہ برس موبائل فون پر پابندی عائد کرنے والے اسکولز کے لیے گرانٹ جاری کرنے کا اعلان کیا تھا اور 100 سے زائد اسکولوں نے یہ اقدام کرنے پر رضا مندی ظاہر کردی ہے۔
SEE ALSO: بچوں کے سوشل میڈیا استعمال کرنے پر پابندی؛ آسٹریلیا میں کوئی خوش تو کوئی ناراضپابندی کی مخالفت
بعض والدین اسکولوں میں سیل فون لانے پر پابندی کی مخالفت بھی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ موبائل فون کی وجہ سے وہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں اپنے بچوں سے فوری رابطہ کر سکتے ہیں۔
بعض والدین حالیہ اسکول شوٹنگ کا بھی حوالہ دیتے ہیں جن میں موبائل فون تک رسائی ہونے کی وجہ سے حملوں کا نشانہ بننے والے طلبہ اپنے اہل خانہ سے رابطہ کر پائے تھے۔
تاہم پابندی کی حمایت کرنے والوں کے نزدیک کسی ہنگامی صورتِ حال میں طلبہ کے پاس فون ہونے سے وہ زیادہ خطرے میں پڑ سکتے ہیں کیوں کہ اس طرح وہ دوسرے طلبہ کی توجہ بٹانے کا باعث بن سکتے ہیں یا کسی حملے کے دوران فون سے ان کی لوکیشن بھی ظاہر ہو سکتی ہے۔
پابندی کی مخالفت کرنے والے والدین کا کہنا ہے کہ وہ اس لیے بھی بچوں کے پاس موبائل فون رہنے کے حامی ہیں کیوں کہ اسی کی مدد سے وہ اپنی ٹرانسپورٹیشن کے لیے رابطے کرتے ہیں۔
ان والدین کا یہ بھی کہان ہے کہ موبائل فون پر پابندی سے بلی انگ یا سوشل میڈیا جیسے مسائل حل نہیں ہوں گے اس لیے پابندی کے بجائے بچوں کو موبائل فون کا بہتر استعمال سکھانا چاہیے۔
اس خبر کے لیے معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔