بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد نے روہنگیا پناہ گزینوں کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ میانمار حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ روہنگیا مہاجرین کو اپنے یہاں واپس بلائے۔
حسینہ واجد جمعے کو بھارت کی ریاست مغربی بنگال کے معروف تعلیمی ادارے شانتی نکیتن میں ایک تقریب سے خطاب کر رہی تھیں۔ تقری میں ان کے بھارتی ہم منصب نریندر مودی بھی موجود تھے۔
اس موقع پر دونوں رہنماؤں نے بھارت اور بنگلہ دیش کے مابین ثقافتی رشتوں کی علامت 'بنگلہ دیش بھون' کا افتتاح بھی کیا۔
تقریب سے خطاب میں حسینہ واجد کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش میں 11 لاکھ روہنگیا پناہ گزین موجود ہیں جنہیں ڈھاکہ حکومت نے انسانی بنیاد پر پناہ دی ہے۔
لیکن ان کے بقول، "اب ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنے وطن واپس جائیں۔ ہم سب سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ میانمار حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ روہنگیا عوام کو واپس لے۔"
روہنگیا مہاجرین کو پناہ دینے کے معاملے پر بھارت اور بنگلہ دیش کی حکومتوں میں اختلافِ رائے ہے۔
مغربی بنگال کی ریاستی حکومت اور نئی دہلی میں بھی اس مسئلے پر اختلافات موجود ہیں۔
مودی حکومت روہنگیا پناہ گزینوں کو واپس بھیجنا چاہتی ہے اور اس بارے میں سپریم کورٹ میں ایک مقدمہ بھی زیرِ سماعت ہے جب کہ مغربی بنگال کی وزیرِ اعلٰی ممتا بنرجی روہنگیا مسلمانوں کو پناہ دینے کے حق میں ہیں۔
دریں اثنا انسانی حقوق کے عالمی ادارے 'ایمنسٹی انٹرنیشنل' نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ روہنگیا شدت پسندوں نے میانمار کے صوبے رخائن میں ہندو دیہاتیوں کا قتلِ عام کیا۔
تاہم بھارت کی بیشتر سرکردہ شخصیات اس رپورٹ پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں اور دہلی کے اقلیتی کمیشن نے اس رپورٹ کی مذمت کی ہے۔
کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ روہنگیا دنیا کی سب سے مظلوم قوم ہے، وہ قتل عام کیسے کر سکتی ہے؟
انھوں نے مزید کہا، "وہ جو غریب ہیں، جو مر رہے ہیں، جو کبھی ہندوستان، کبھی ملائیشیا، کبھی تھائی لینڈ اور کبھی بنگلہ دیش بھاگ رہے ہیں، وہ ہندوؤں کا قتلِ عام کیسے کر سکتے ہیں۔ ان کو کسی کا قتل کرنا ہوگا تو بودھوں کا کریں گے جو کہ ان کو مار رہے ہیں۔ یا فوج کے لوگوں پر حملہ کریں گے۔"
انھوں نے مزید کہا کہ روہنگیا مسلمانوں کو بیس تیس برسوں میں اتنا کنگال کر دیا گیا ہے کہ ان کے پاس کچھ ہے ہی نہیں۔ جس قوم کے پاس کچھ ہے ہی نہیں وہ اتنا بڑا پروگرام بنا کر کیسے لوگوں کو جا کر مار دے گی۔ ہندو تو ان کے اپنے لوگ ہیں۔ ان کی زبان بولتے ہیں۔ ان کے ساتھ دیہات میں رہتے ہیں۔ تو ان کو کیسے وہ ماریں گے؟ وہ بھی تو بھاگ کر یہاں آ رہے ہیں۔
ظفر الاسلام کا مزید کہنا تھا کہ میانمار کی حکومت نے ایک جال بچھایا اور ایمنسٹی انٹرنیشنل اس جال میں پھنس گئی۔ ان کے مطابق ایک منصوبہ کے تحت ایمنسٹی کے کارکنوں کو وہاں لے جایا گیا اور اپنے مطلب کی رپورٹ جاری کرائی گئی۔ انھوں نے بتایا کہ کہ اس علاقے میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔
ظفر الاسلام نے شبہ ظاہر کیا کہ میانمار کی حکومت نے بھارت کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے یہ قدم اٹھایا ہے۔
ایک امریکی گروپ 'برما ٹاسک فورس' نے بھی ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کی مذمت کی ہے۔