افغانستان میں طالبان حکومت کے نائب وزیرِ خارجہ شیر محمد عباس ستنکزئی نے اعتراف کیا ہے کہ افغان شہریوں کی عبوری حکومت سے دوری کی بنیادی وجہ خواتین کی تعلیم پر مسلسل پابندی ہے۔
افغان خبر رساں ادارے 'طلوع نیوز' نے رپورٹ کیا کہ شیر محمد عباس ستنکزئی نے چھٹی جماعت سے آگے کی طالبات کے لیے اسکول کھولنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ علم کے بغیر معاشرہ 'تاریک' ہے۔
سرحدوں اور قبائلی امور کی وزارت کی جانب سے منعقدہ گریجویشن تقریب سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ 'یہ ہر کسی کا حق ہے۔ یہ فطری حق ہے جو اللہ اور پیغمبر اسلام نے انہیں دیا ہے۔ کوئی یہ حق ان سے کیسے چھین سکتا ہے؟
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی اس حق کی خلاف ورزی کرتا ہے تو یہ افغان شہریوں اور اس ملک کے لوگوں پر ظلم ہے۔
واضح رہے کہ اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد نافذ کیے گئے سخت اقدامات میں، چھٹی جماعت سے آگے لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی بھی شامل تھی۔ بعد ازاں طالبان نے خواتین کے پارک جانے پر پابندی اور بیوٹی پارلرز کی بندش سمیت دیگر پابندیاں عائد کی تھیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب طالبان حکومت کے کسی وزیر نے خواتین کی تعلیم پر پابندی کی پالیسی پر بات کی ہو۔ اس سے قبل بھی بعض مذہبی رہنما اور طالبان حکومت میں شامل افراد اس پالیسی پر تنقید کرتے رہے ہیں۔
لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کا ذمے دار سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ اور اُن کے کچھ قریبی ساتھیوں کو سمجھا جاتا ہے جو خواتین کی تعلیم کے حوالے سے سخت مؤقف رکھتے ہیں۔
SEE ALSO: جلاوطن افغان ایکٹیوسٹ پشتانہ درانی کو"محمدعلی ہیو مینیٹیرین ایوارڈ"اقوام متحدہ کے بچوں کے امور سے متعلق ادارے یونیسیف نے ستمبر میں کہا تھا کہ طالبان کی اس پابندی سے 10 لاکھ سے زیادہ لڑکیاں متاثر ہوئی ہیں۔
ستنکزئی کا کہنا تھا کہ "تعلیمی اداروں کے دروازے سب کے لیے کھولنے کی کوشش کی جائے۔ آج پڑوسیوں اور دنیا کے ساتھ ہمارا واحد مسئلہ صرف تعلیم کے مسئلے کی وجہ سے ہے۔ اگر قوم ہم سے دوری اختیار کر رہی ہے اور ہم سے ناراض ہے تو اس کی وجہ تعلیم کا مسئلہ ہے۔"
رپورٹ کے مطابق اس تقریب سے خطاب میں سرحدوں اور قبائلی امور کے عبوری وزیر نور اللہ نوری نے کہا ہے کہ انہوں نے ایسے نوجوانوں کو اسکولوں میں داخل کیا جو دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں اور تعلیم تک رسائی سے محروم ہیں۔
SEE ALSO: طالبان اقتدار کے بعد افغان خواتین کے ساتھ آن لائن بدسلوکی میں تین گنا اضافہ : رپورٹ
ان کے بقول عوام اور حکومت کے درمیان دوری کا مسئلہ درست نہیں ہے۔ ایسا کوئی فاصلہ نہیں ہے۔ اماراتِ اسلامیہ کے دور میں جو تعلیم دی جا رہی ہے، اس سے پہلے ایسا کوئی نظام نہیں تھا۔
خیال رہے کہ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے ایک حالیہ رپورٹ میں کہا تھا کہ طالبان کی بدسلوکی پر مبنی پالیسیوں کی وجہ سے افغانستان میں لڑکیوں کے ساتھ ساتھ لڑکوں کی تعلیم بھی متاثر ہو رہی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ طالبان نے خواتین اساتذہ پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے جس کی وجہ سے بہت سے لڑکوں کو غیر تربیت یافتہ افراد تعلیم دے رہے ہیں یا ان کے کلاس رومز میں ٹیچر سرے سے ہیں ہی نہیں۔