بلوچستان کی سیاسی جماعتوں سے منسلک خواتین رہنماؤں نے حکومت اور اس کے اداروں پر زور دیا ہے کہ صوبے میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کانوٹس لیا جائے اور لاپتا نوجوانوں کو منظرِ عام پر لاکر اُنھیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔
یہ مطالبہ کوئٹہ میں ایک این جی او کے زیرِ اہتمام بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکایات کے بارے میں ایک سیمینار میں کیا گیا۔
سیمینار میں مختلف سیاسی جماعتوں کی خواتین رہنماﺅں نے شرکت کی۔
سیمینار کا اہتمام کرنے والی تنظیم 'ٹوڈیز ویمن آرگنائزیشن' کی ثنا دُرانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سیمینار میں شرکت کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں اور خواتین نے صوبے میں مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مسئلے کو بلوچستان کا ہی نہیں بلکہ پاکستان کا بڑا مسئلہ قرار دیا اور اس کو فوری طور پر حل کر نے پر زور دیا۔
ثنا دُرانی نے کہا کہ سیمینار کا مقصد یہ جاننا تھا کہ سیاسی جماعتیں کس حد تک انسانی حقوق کو اہمیت دیتی اور ان کو فوکس کرتی ہیں اور صوبے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جو شکایات آرہی ہیں اُن کو حل کرنے کے لیے سیاسی جماعتیں کیا حکمتِ عملی اختیار کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے سیاسی جماعتیں بلوچستان کے مسائل پر اجتماعی طور پر آواز اُٹھانے کے بجائے انفرادی طور پر بات کرتی ہیں جس کی وجہ سے صوبے کے مسائل اُجاگر نہیں ہو رہے۔
سیمینار میں سب سے زیادہ لاپتا افراد کے مسئلے پر بات کی گئی اور متفقہ طور پر مطالبہ کیا گیا کہ صوبے کے جبری لاپتا نوجوانوں کو بازیاب کر کے عدالتوں میں پیش کیا جائے۔
سیمینار میں شریک بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کی مرکزی کمیٹی کی رکن جمیلہ بلوچ نے وی او اے کو بتایا کہ بی این پی نے کو شش کی ہے کہ ملک بھر کے عوام کو یہ احساس دلایا جائے کہ بلوچستان کے لوگوں کے بھی انسانی حقوق ہیں جن کا تحفظ ہونا چاہیے۔
ان کے بقول آج ہماری بہینیں، مائیں اور بچے سڑکوں پر بیٹھ کر اپنے لاپتا بیٹوں، بھائیوں اور شوہروں کی بازیابی کے لیے احتجاج کر رہی ہیں جس کا حکومت اور اس کے اداروں کو نوٹس لینا چاہیے۔
جمیلہ بلوچ نے بتایا کہ حال ہی میں انہوں نے ضلع واشک میں 40 سے زائد گھروں کا دورہ کیا جہاں ان کے بقول انہیں کسی گھر میں کوئی مرد نہیں نظر آیا۔ "کوئی نوجوان میں نے نہیں دیکھا اور پوچھنے پر گاﺅں والوں نے بتایا کہ وہ لاپتا ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی خواتین میں اب اپنے سیاسی حقوق کا شعور پیدا ہو گیا ہے اور اسی لیے وہ اپنے گھروں سے نکل رہی ہیں۔
لیکن انہوں نے الزام عائد کیا کہ اس شعور کو بلوچ خواتین کو خوفزدہ کر کے دانستہ طور پر ختم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ کبھی بلوچ خواتین پر تیزاب پھینکا جاتا اور کبھی بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے والی خواتین پر فائرنگ کی جاتی ہے تاکہ بلوچ خواتین اپنے حقوق کے لیے گھروں سے نکل نہ سکیں۔
سیمینار میں شریک ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سینئر وائس چیئرمین رضا وکیل نے وی او اے کو بتایا کہ ہزار ہ برادری کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ ہر سطح پر جاری ہے اور حکومت ہزارہ برادری کو روزگار یا ملازمت فراہم نہیں کر رہی۔
انہوں نے کہا کہ عام شہری ان کی برادری کے لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ کر نے والوں کی نشاندہی نہیں کر تے اور نہ ہی گواہی دینے آتے ہیں بلکہ ان کے بقول جب کسی ہزارہ کو بھرے بازار میں گولیاں مار دی جاتی ہیں تو لوگ اُسے اسپتال پہنچانے کے بجائے فوراً اپنی دُکانیں بند کر کے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ معاشرے میں رہنے والے سارے لوگ ہزارہ برادری یا ان کے عقائد کے مخالف نہیں ہیں بلکہ چند لوگ یہ کام کر رہے ہیں جن کو باہمی اتحاد واتفاق سے ناکام بنایا جاسکتا ہے۔
سیمینار میں شریک تحریکِ انصاف کی خاتون رکنِ قومی اسمبلی منورہ منیر کا کہنا تھا کہ لاپتا افراد کا مسئلہ کافی عر صے سے ملک میں چل رہا ہے جسے ان کے بقول حکومت ہمیشہ کے لیے حل کرنے کی کو ششیں کر رہی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ بعض علاقوں کے جوان اپنے خاندان کو مطلع کیے بغیر بیرونِ ملک چلے جاتے ہیں اور خاندان والے اس کا الزام بھی ریاستی اداروں پر لگاتے ہیں جب کہ اسی طرح کچھ لوگ آپس کی دشمینوں میں مارے جاتے ہیں لیکن بعض لوگ اس کی ذمہ داری بھی ریاستی اداروں پر ڈال دیتے ہیں۔
منورہ منیر نے کہا کہ اگر کسی کے پاس اپنے کسی رشتہ دار کے لاپتا ہونے کا ثبوت ہے تو وہ پیش کرے، حکومت اس کا جائزہ لے گی اور مسئلے کو حل کر ے گی۔
بلوچ قوم پرستوں کا کہنا ہے کہ صوبے بھر سے ہزاروں نوجوان لاپتا ہیں جنہیں ان کے بقول سکیورٹی اداروں نے غیر قانونی تحویل میں لے رکھا ہے۔ حکام ان دعووں کی تردید کرتے ہیں۔
ماضی میں بلوچستان سے لاپتا افراد کی تشدد زدہ لاشیں بھی برآمد ہوتی رہی ہیں۔