بلو چستان ہائی کور ٹ نے وفاقی تحقیقات ادارے (ایف آئی اے) کو حکم دیا ہے کہ جامعہ بلوچستان میں طلبہ کو ہراساں کرنے کے کیس کی تحقیقاتی رپورٹ 29 اکتوبر کو عدالت میں پیش کی جائے۔
چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جمال مندوخیل اور جسٹس عبداللہ بلوچ پر مشتمل دو رُکنی بنچ نے قائم مقام وائس چانسلر محمد انور پانیزئی کو ہدایت کی کہ بلوچستان یونیورسٹی میں نصب کیے گئے تمام غیر ضروری کیمرے ہٹا دیے جائیں اور کنٹرول روم کے لیے اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جائے۔
بلوچستان یونیورسٹی میں طلبہ کو ہراساں کرنے کے کیس میں یونیورسٹی کے نئے قائم مقام وائس چانسلر نے ادارے کے چار ملازمین کو بر طرف کر دیا ہے اور ادارے میں مختلف شعبوں میں انٹرن شپ پر کام کرنے والے 100 افراد کو بھی فارغ کر دیا ہے۔
جامعہ بلوچستان میں مختلف مقامات پر سیکیورٹی کے نام پر نصب خفیہ کیمروں کی فوٹیج کے ذریعے طالب علموں کو ہراساں کرنے کا معاملہ گزشتہ ہفتے سامنے آیا تھا۔
یونیورسٹی کے قائم مقام چانسلر محمد انور پانیزئی نے بُدھ کو احتجاج کر نے والے اساتذہ سے خطاب کے دوران طلبہ اور اساتذہ سے اپیل کی کہ یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات ہراساں کرنے کے واقعات کے حوالے سے پیدا ہونے والے خوف کو ختم کرنے میں اُن کا ساتھ دیں۔
وائس چانسلر انور پانیزئی کے بقول، یہ ابھی آغاز ہے، اگر اس اسکینڈل میں سو لوگ بھی ملوث ہوں گے تو انہیں معاف نہیں کیا جائے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اسلام میں انسان کی حرمت کو اولیت دی گئی ہے، چاہے وہ مرد ہو یا عورت ، اب یونیورسٹی میں نصب کیمرے آپ کی سرگرمیاں کبھی ریکارڈ نہیں کر یں گے۔ جہاں بھی کیمرہ لگے گا، اُس کے ساتھ بورڈ لگا ہوگا کہ یہاں تمام سرگرمیاں نوٹ کی جارہی ہیں، آپ اپنا خیال رکھیں۔
وائس چانسلر انور پانیزئی کی گفتگو سننے کے لیے وائس آف امریکہ کے نمائندے عبد الستار کاکڑ کی آڈیو رپورٹ پر کلک کیجیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
طلبہ و طالبات کو ہراساں کرنے کا واقعہ سامنے آنے کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف ائی اے کے سائیبر کرائم سیکشن نے تحقیقات شروع کی تھیں، جس کے بعد ادارے کے سابقہ انتظامی سربراہ وائس چانسلر جاوید اقبال اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے۔
گزشتہ روز یونیورسٹی کی طالبات نے ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا تھا ۔ سوشل میڈیا پر دستیاب ویڈیو میں ایک طالبہ کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ خفیہ کیمرہ اسکینڈل میں ملوث مزید افراد ابھی بے نقاب ہونا باقی ہیں۔