جمعےکو امریکی ایوانِ نمائندگان میں متعارف کی گئی ایک قرارداد میں کہا گیا ہےکہ بلوچ عوام کو جو پاکستان، ایران اور افغانستان کے درمیان بٹے ہوئے ہیں، حق خود ارادیت اور اپنا خود مختار ملک بنانے کا حق حاصل ہے۔ اِس پر، پاکستان نے شدید ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔
یہ قرارداد ریاست کیلی فورنیا سےتعلق رکھنے والے کانگریس مین ڈینا روہراباکر نے متعارف کروائی جنہوں نےگزشتہ ہفتے ایوان نمائندگان کی امورِخارجہ کمیٹی میں بلوچستان پر ایک سماعت کا انتظام بھی کیا تھا۔
پیش کردہ قرارداد کے مطابق پاکستان نے سنہ1948 میں فوجیں بھیج کر بلوچستان پر قبضہ کر لیا تھا اور’’سنہ1958، 1973، اور 2005 میں ہونے والی بغاوتوں سے پتہ چلتا ہے کہ عوام اسلام آباد کی حکومت کے خلاف ہیں۔”
ایوان میں جمع کرائی گئی قرارداد میں یہ بھی کہا گیا ہےکہ پاکستان ، بلوچستان کے وسائل کو ’’لوٹ” رہا ہے، جبکہ خود بلوچستان ایک غریب صوبہ ہے ۔
اس کے علاوہ، ایران میں واقع سیستان بلوچستان کے بارے میں اِس میں کہا گیا کہ وہاں مزاحمت کے جواب میں ’’ایرانی آمریت شدید ظلم کر رہی ہے۔”
دریں اثنا، امریکی محکمہ خارجہ نےکانگریس مین روہراباکر کے بیانات اور اُن کے پیش کردہ بِلوں سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ’ امریکہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا‘۔
دفتر خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نیولینڈ کے مطابق بلوچستان کا معاملہ پاکستان کا ’اندرونی معاملہ ہے‘ جسے تمام فریقوں کو مل کر پُرامن طریقے سے حل کرنا چاہیئے۔
اُدھر، پاکستان نے کانگریس مین ڈینا روہراباکر کی طرف سے ایوان نمائندگان میں پیش کی گئی قرارداد پرسخت ردِعمل ظاہر کیا ہے جِس میں صوبہ ٴبلوچستان کو’ آزاد مملکت‘ قرار دینے کے لیےکہا گیا ہے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے جمعہ کی شب سخت ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے، اِسے ’بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی‘ قرار دیا، اور اِس امید کا اظہار کیا کہ امریکی ایوان اِسے مسترد کردے گا۔
پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق، دفترِ خارجہ نے کہا ہے کہ بِل کے تجویز کنندہ بلوچستان کی زمینی صورتِ حال سے لاعلم ہیں اور اُنہوں نے یہ قرارداد پیش کرکے"انتہائی غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل" کا مظاہرہ کیا ہے۔