"ڈگری حاصل کرنے کے بعد آپ کس مسلح تنظیم کو جوائن کرو گے؟ کس مسلح تنظیم سے آپ نے تربیت لی ہے؟ آپ کون سا ہتھیار چلا سکتے ہو؟"
بلوچ طلبا کا کہنا ہے کہ یہ وہ سوالات ہیں جو بلوچستان سے دوسرے صوبوں خصوصاً پنجاب میں تعلیم کی غرض سے پڑھنے والے بچوں سے سیکیورٹی اداروں کے افسران نے کیے ہیں۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک بلوچ طالب علم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان سوالات کے بعد انہیں شدید پریشانی لاحق ہوئی کیوں کہ ان کے ذہن میں یہی خیال آیا کہ ان سے ایسے سوال کیوں کیے جا رہے ہیں؟
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیر کے روز کیس کی سماعت کے دوران سینیٹر اختر مینگل کو بلوچ طلبہ کو ہراساں کیے جانے کے خلاف بنائے گئے کمیشن کا سربراہ مقرر کیا تھا اور ایک ماہ میں رپورٹ بھی طلب کی۔
عدالت نے بلوچ طلبہ کی وکیل ایمان مزاری کو بھی ہدایت کی تھی کہ وہ اپنی تمام شکایات سیکریٹریٹ میں جمع کرائیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے تھے کہ بلوچ طلبہ کو ہراساں کرنا ایک اہم معاملہ ہے، بلوچ طلبہ تعلیم کی غرض سے آتے ہیں اور وہ کیوں غیر محفوظ ہیں؟
SEE ALSO: بلوچ طلبہ کی آواز دبانا اصل بغاوت ہے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹوائس آف امریکہ نے پنجاب کی مختلف یونی ورسٹیوں میں زیر تعلیم بلوچ طلبہ سے اس سلسلے میں گفتگو کی اور ان سے ان کے مسائل جاننے کی کوشش کی۔
اسلامیہ یونی ورسٹی بہاولپور میں عمران بلوچ (فرضی نام)نے وائس آف امریکہ کو 'پروفائلنگ' کے بارے میں بتایا کہ بلوچستان سے آنے والے طلبہ کو شدید ذہنی اذیت کا سامنا ہے۔
ان کے بقول "پہلے جو لوگ بلوچستان سے پڑھنے آتے تھے ان کا خیال تھا کہ پنجاب میں آزادی کا ماحول ہوگا لیکن یونی ورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد نوجوان نفسیاتی مریض بن کر واپس لوٹتے ہیں۔"
بلوچ طلبہ سے انتظامیہ اور کلاسوں میں روا رکھے جانے والے رویے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان سے کلاسوں میں کہا جاتا ہے کہ "آپ لوگ تو دہشت گرد ہو، آپ بھکاری ہو، فیس نہیں دیتے۔"
یونی ورسٹی میں بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کے چئیرمین امان اللہ بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 'ہراسمنٹ' سے مراد انتظامیہ کا بلوچ طلبہ سے روا رکھے جانے والا سلوک ہے۔ انہیں یونی ورسٹی ڈیپارٹمنٹ میں بڑے عہدوں پر بیٹھے افراد سے لے کر ڈرائیور تک ناشائستہ رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان کے بقول، " کوئی ہمیں براہِ راست تو کچھ نہیں کہتا لیکن ہر کام میں رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں اور کاغذوں کے بہانے ٹالا جاتا ہے۔"
SEE ALSO: فیسوں میں اضافے کے خلاف بلوچستان کے میڈیکل اسٹوڈنٹس کا مظاہرہاسلامیہ یونی ورسٹی بہاولپور کے باہر بلوچ طلبہ کے دھرنے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان لوگوں کا بڑا مسئلہ اسکالرشپ کا ہے جس سے انہیں محروم کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 2013 میں 'آغازِ حقوق بلوچستان' پیکج کے بعد سے پنجاب کی یونی ورسٹیوں میں بلوچ طلبا کے لیےنشتیں مخصوص کی گئی تھیں لیکن 2020 کے بعد سے کبھی فنڈز کے بہانے تو کبھی کسی اور طریقے سے بلوچ طلبہ کو ان اسکالرشپس سے دور رکھا جا رہا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ یونی ورسٹی انتظامیہ بھی ان طلبہ سے آدھی فیس کا مطالبہ کر رہی ہے جو اسکالر شپس پر آئے تھے جس کے بعد وہ واپسی کا ارادہ رکھتے ہیں۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والی سیاسی کارکن ماہ رنگ بلوچ کہتی ہیں بہاؤالدین زکریا یونی ورسٹی، اسلامیہ یونی ورسٹی اور پنجاب یونی ورسٹی کی جانب سے اسکالر شپ کے لیے آنے والے بلوچ طلبہ سے ایک نیا ٹیسٹ لیا جا رہا ہے جس پر سوال اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طلبہ پہلے ہی بلوچستان میں ایک ٹیسٹ دے کر یہاں آتے ہیں تو ایسے میں انہیں پنجاب کے طلبہ سے مقابلہ کرانا تعلیم سے روکنے کے مترادف ہے۔
وائس آف امریکہ نے پنجاب کے وزیر تعلیم یاسر ہمایوں اور وائس چانسلر اسلامیہ یونی ورسٹی بہاولپور سے بلوچ طلبہ کی شکایات سے متعلق سوالات بھیجے مگر ان کی جانب سے اس رپورٹ کے شائع ہونے تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
Your browser doesn’t support HTML5
تعلیمی اداروں میں بلوچ طلبہ کے ساتھ روا رکھے جانے والے مبینہ ناروا سلوک کے تدارک کے لیے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل اپنی سفارشات پیش کریں گے۔
بلوچ طلبہ کی وکیل ایمان حاضر مزاری نے وائس آف امریکہ کی 'ڈیوا' سروس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن کی سربراہی کے لیے عدالت کی جانب سے اختر مینگل کے نام پر کسی نے اعتراض نہیں اٹھایا۔
ان کے بقول، کمیشن پانچ ماہ پہلے تشکیل دیا گیا تھا لیکن اس عرصے کے دوران کمیشن کا کوئی اجلاس نہیں ہوا۔"
ایمان مزاری نے کہا کہ اختر مینگل کےکمیشن کے سربراہ بننے سے امید کی جا سکتی ہے کہ بلوچ طلبہ کو تعلیمی اداروں میں ہراساں کیے جانے کے خلاف مضبوط اقدامات اٹھائے جا سکیں گے۔
ماہ رنگ بلوچ بھی کہتی ہیں کہ بلوچ اپنے ملک کے قانون پر بھروسہ رکھنا چاہتے ہیں اور قانون پر عمل درآمد ہی شہریوں کا اعتماد بحال کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ طلبہ ہراسانی کا معاملہ خود عدالت لے کر گئے اور اب عدالت پر منحصر ہے کہ وہ بلوچ طلبہ کی 'پروفائلنگ' اور ہراسانی پر شفاف طریقے سے تحقیقات کرائے۔ اس ضمن میں دیکھنا یہ ہے کہ عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے اور اس پر عمل درآمد ہوتا ہے یا نہیں۔