'چیف جسٹس کے مشورے کا شکریہ مگر سیاسی فیصلے سیاست دانوں کو ہی کرنے دیں'

پاکستان تحریکِ انصاف(پی ٹی آئی) کے مرکزی رہنما اور سابق وزیر قانون ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کے مشورے کا شکریہ، لیکن سیاسی فیصلے عدالتیں نہیں بلکہ سیاسی جماعتیں کرتی ہیں۔

اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کے علی فرقان کو دیے گئے انٹرویو میں بابر اعوان کا کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف چاہتی ہے کہ سائفر معاملے کی تحقیقات سپریم کورٹ آف پاکستان کرے۔ چیف جسٹس کی جانب سے اس معاملے کو پارلیمنٹ میں بیٹھ کر حل کرنے کے مشورے پر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کے مشورے کا شکریہ، لیکن سیاسی فیصلے عدالتیں نہیں بلکہ سیاسی جماعتیں کرتی ہیں۔

بابر اعوان نے وزیرِ اعظم شہباز شریف کے اس دعوے کہ سائفر کی تحقیقات ہو چکی ہیں کو رد کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف کے نزدیک تو سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری بھی مکمل ہو چکی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان دو تہائی اکثریت کے بعد ہی اب پارلیمنٹ میں واپس آئیں گے، لیکن اگر 'امپورٹڈ حکومت' سائفر معاملے پر سپریم کورٹ کا بینچ بنوا دے تو پارلیمنٹ میں واپسی کا سوچا جا سکتا ہے۔

خیال رہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان اپنے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کو امریکی سازش کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے اصرار کرتے رہے ہیں کہ مارچ میں امریکہ میں پاکستانی سفیر نے ایک سائفر (خط) حکومتِ پاکستان کو بھجوایا تھا۔ اُن کے بقول اس سائفر میں مبینہ طور پر دھمکی دی گئی تھی کہ اگر عمران خان کی حکومت کو نہ گرایا گیا تو پاکستان کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔

امریکہ نے اس الزام کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔

Your browser doesn’t support HTML5

عمران خان کی آڈیو سائفر اور سازش کی سچائی کا ایک اور ثبوت ہے: بابر اعوان

'الیکشن کے لیے آخری دھرنے میں دیر نہیں ہے'

عمران خان کی جانب سے لانگ مارچ کے اعلان کے باوجود اس کے التوا کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر بابر اعوان کہتے ہیں کہ یہ سیاسی حکمتِ عملی کے تحت ہی ہوتا ہے کہ کون سے فیصلے کا کب اعلان کیا جانا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ عمران خان کی سربراہی میں لانگ مارچ کے حوالے سے اعلی قیادت کے ساتھ مسلسل مشاورت جاری ہے اور اس حوالے سے فیصلے کر رکھے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ " دیر نہیں ہے(لانگ مارچ میں)، الیکشن کے لیے آخری احتجاج، آخری جلسہ یا آخری دھرنا اس میں سے فیصلہ عمران خان کریں گے۔"

'آڈیو لیک نے ثابت کردیا سائفر حقیقت ہے'

امریکی مراسلے کے تناظر میں لیک ہونے والی آڈیو زکے افشا ہونے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے دعوی کیا کہ اس لیک آڈیو سے سائفر ایک حقیقت کے طور پر ثابت ہوگیا۔

وہ کہتے ہیں کہ عمران خان کی آڈیو لیک میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو ہمارے مؤقف کی نفی کرتی ہو بلکہ یہ ایک اضافی ثبوت ہے کہ سازش کے ذریعے ہماری حکومت کا خاتمہ کیا گیا۔


اس آڈیو میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کو سائفر کے حوالے سے ایک میٹنگ بلانے کا مشورہ دیتے بھی سُنا جا سکتا ہے اور وہ اس اجلاس میں اس وقت کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور خارجہ سیکریٹری کو بلانے کے لیے کہتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے سنے جا سکتے ہیں کہ اس اجلاس کے منٹس وہ خود تیار کریں گے جن میں اپنی مرضی کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔

بابر اعوان کہتے ہیں کہ قومی سلامتی کمیٹی نے بھی سائفر کے حوالے سے کہا مداخلت ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا ہی ایک خط سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کے دور میں آیا تھا جس کے بعد ان کا عدالتی قتل کردیا گیا۔ اپنی بات کر جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ دور اور تھا اور آج کے حالات مختلف ہیں اور عمران خان قوم کو جگانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔

'عمران خان کی گرفتاری کا خطرہ ٹل گیا'

پی ٹی آئی کے رہنما کہتے ہیں کہ عمران خان کی قانونی مشکلات حل ہوچکی ہیں اور ان پر دائر سنگین مقدمات ختم ہوچکے یا ضمانت پر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کا مقصد تھا کہ عمران کے خلاف مقدمات کا اندراج کرکے انہیں گرفتار کیا جائے لیکن انہیں اس حوالے سے درکار ثبوت دستیاب نہیں ہوسکے۔

بابر اعوان کہتے ہیں کہ اس کے بعد حکومت کی کوشش تھی کہ توشہ خانہ کے مقدمے میں عمران خان کو سزا سنائی جائے لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کے اتحادی جماعت کے سابق وزیرِ اعظم نے تین گاڑیاں گفٹ کی تو اس سے بھی پیچھے ہٹ گئے۔

الیکشن کمیشن میں عمران خان کے خلاف چلنے والے معاملات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن عدالت ہے نہ ہی ٹرائل کورٹ، اس لیے وہ کسی کے خلاف توہینِ عدالت کی کاروائی کرسکتے ہیں اور نہ ہی کسی کے صادق و امین ہونے کا فیصلہ دے سکتے ہیں۔


الیکشن کمیشن میں ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے کے نتیجے میں پی ٹی آئی پر پابندی لگنے کے خدشے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے پاس جماعت پر پابندی لگانے کا اختیار نہیں ہے اور اس حوالے سے کیے جانے والے تبصرے غلط معلومات پر مبنی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے خلاف الیکشن کمیشن میں غیر ملکی فنڈنگ نہیں بلکہ ممنوعہ فنڈنگ کا کیس ہے جس پر پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2002 کے تحت فنڈنگ ضبط ہوتی ہے اور جماعت پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے پر بات کرتے ہوئے بابر اعوان نے کہا کہ عدالتی معاونین بھی کہہ چکے تھے کہ عمران خان کے الفاظ کا چناؤ قابل اعتراض ہوسکتا ہے مگر اس میں توہینِ عدالت کا عنصر شامل نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ عمران خان گزشتہ پیشی پر بھی بات کرنا چاہتے تھے لیکن انہیں بات کرنے نہیں دی گئی بہرحال عدالت نے ان کی وضاحت پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔