آزادی مارچ: کیا امپائر کی انگلی کھڑی ہو سکتی ہے؟

جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اسلام آباد مارچ کا اعلان کیا ہے — فائل فوٹو

جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن 'آزادی مارچ' لے کر 31 اکتوبر کو اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن نے اعلان کر رکھا ہے کہ اسلام آباد کے ڈی چوک میں حکومت کے استعفے تک دھرنا ہو گا۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بھی مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ سے نمٹنے کے لیے سرگرم ہے۔ حکومت نے آزادی مارچ کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ (ق)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)، بلوچستان عوامی پارٹی (بی این پی) سے رابطوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔

چند روز قبل وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے لاہور میں حکومت کی اہم اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری پرویز الہٰی سے ملاقات بھی کی تھی۔ تاہم، سیاسی حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا موجودہ صورتِ حال میں اتحادی جماعتیں حکومت کا بھر پور ساتھ دے سکیں گی؟

تحریک انصاف کی اتحادی جماعتیں

گزشتہ عام انتخابات کے بعد مطلوبہ نشستیں نہ ہونے کے باعث تحریک انصاف نے مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم، بی این پی اور گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کی حمایت سے حکومت سازی کا عمل مکمل کیا تھا۔

حکومت کے یہ اتحادی گزشتہ ایک سال کے دوران کابینہ میں مطلوبہ حصہ نہ ملنے کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الہی مسلم لیگ (ق) کے مرکزی قائدین ہیں — فائل فوٹو

سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کی اتحادی جماعتوں کے پاس حکومت کی حمایت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

ان کے بقول، یہ ممکن نہیں کہ مسلم لیگ (ق) مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دے یا متحدہ قومی موومنٹ پیپلز پارٹی کی بات مانے۔

حسن عسکری کہتے ہیں کہ یہ جماعتیں اقتدار میں ہیں۔ ان کے کچھ تحفظات ضرور ہو سکتے ہیں، لیکن مولانا فضل الرحمٰن کے مارچ کے خلاف یہ حکومت کا ہی ساتھ دیں گی۔

'یہ اتحادی عمران خان کے نہیں ہیں'

وزیر اعظم عمران خان نے مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطے کے لیے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔

سینئر تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا ہے کہ یہ اتحادی عمران خان کے اتحادی نہیں بلکہ ان مقتدر قوتوں کے ساتھ ہیں جنہوں نے عام انتخابات کے بعد انہیں حکومت کا حصہ بنانے کے لیے کہا تھا۔

ان کے بقول، یہ اتحادی دیکھیں گے کہ کیا اب یہ مقتدر قوتیں عمران خان کے ساتھ ہیں بھی یا نہیں۔

سلمان غنی کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن کا سیاسی سمجھوتا صرف ایک پارٹی سے ہو سکتا ہے اور وہ مسلم لیگ (ق) ہے۔

ان کے بقول، مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الہٰی سے مولانا فضل الرحمٰن کے قریبی مراسم ہیں۔

سینئر تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ بلوچستان کے اختر مینگل ماضی میں حکومت سے ناراضگی کا اظہار کر چکے ہیں۔ لہذٰا، اس مرتبہ بھی وہ حکومت کا کھل کر ساتھ نہیں دیں گے۔

ان کے بقول، حکومت نے سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطوں میں بہت دیر کر دی ہے اگر حکومت مفاہمت کے لیے رابطے پہلے شروع کر دیتی تو یہ نوبت نہ آتی۔

'تحفظات کے باوجود حکومت کے ساتھ ہیں'

مسلم لیگ (ق) کے سینئر رہنما سینیٹر کامل علی آغا کہتے ہیں کہ حکومت کے اتحادیوں پر بھی حکومتی جماعت جتنا عوامی دباؤ ہوتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کامل علی آغا کا کہنا تھا کہ اس وقت ڈرائیونگ سیٹ پر پاکستان تحریک انصاف ہے۔

کامل علی کے مطابق، وہ اعتراف کرتے ہیں کہ ملک میں بیڈ گورننس ہے۔ ہم اپنے تحفظات حکومت تک پہنچاتے رہتے ہیں لیکن ہمارا گلہ ہے کہ مشاورت کا تسلسل قائم نہیں رہتا۔

کامل علی آغا کا کہنا تھا کہ عمران خان نے چوہدری شجاعت حسین سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایک کمیٹی بنا کر اتحادیوں کے تحفظات کا ازالہ کریں گے۔ لیکن تین ماہ گزر جانے کے باوجود وہ کمیٹی نہیں بن سکی۔

مسلم لیگ (ق) کے رہنما کہتے ہیں کہ ہماری قیادت کے مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ اگر وزیر اعظم نے مسلم لیگ (ق) کو کوئی ٹاسک دیا تو پارٹی مولانا فضل الرحمٰن سے بات چیت کر سکتی ہے۔

خیال رہے کہ 2014 میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی قیادت میں دونوں جماعتوں کے کارکنوں نے اسلام آباد کے ڈی چوک کے سامنے دھرنا دیا تھا۔

اس وقت عمران خان عام انتخابات میں دھاندلی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے جب کہ ڈاکٹر طاہر القادری جون 2014 میں ماڈل ٹاؤن میں اپنے 14 کارکنوں کی ہلاکت پر احتجاج کے لیے اسلام آباد پہنچے تھے۔

اس احتجاج کا مقابلہ کرنے کے لیے نواز شریف کی اس وقت کی حکومت نے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلایا تھا۔

اجلاس میں پیپلز پارٹی سمیت اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں نے ان دھرنوں سے اظہار لا تعلقی کیا تھا۔

عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے 2014 میں اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا — فائل فوٹو

کیا امپائر کی انگلی کھڑی ہو سکتی ہے؟

سینئر تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ اگر مولانا فضل الرحمٰن کو 20 سے 25 ہزار افراد کے ہمراہ اسلام آباد میں داخلے کی اجازت ملی گئی تو اس تاثر کو تقویت ملے گی کہ انہیں طاقت ور حلقوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ حل ہو گیا ہے۔

ان کے بقول، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہیں جب کہ قومی حکومت کے قیام کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔

سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن ایک شاطر سیاست دان ہیں اور وہ ماضی میں کبھی بھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نہیں گئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر مولانا فضل الرحمٰن کو ہزاروں افراد کے ساتھ اسلام آباد میں داخل ہونے دیا گیا تو جس طرح 2014 کے دھرنے کے دوران عمران خان نے 'امپائر کی انگلی' کی بات کی تھی تو اس بار امپائر اپنی انگلی کھڑی کر سکتا ہے۔

سلیم بخاری کے بقول، اسٹیبلشمنٹ کے بعض حلقوں میں شاید اب یہ تاثر جنم لے رہا ہے کہ عمران خان اب ایک بوجھ ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں۔

'دلوں کا حال تو اللہ جانتا ہے'

وائس آف امریکہ کے رابطہ کرنے پر وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن سمیت حکومتی اتحادیوں کے ساتھ رابطے کے لیے وزیر دفاع پرویز خٹک کی قیادت میں ایک کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اتحادی جماعتوں کے حکومت کے ساتھ مفادات ہیں لیکن دلوں کا حال تو صرف اللہ جانتا ہے۔