وادیٔ نیلم میں برفانی تودے گرنے سے تباہی، ہلاکتیں 100 سے تجاوز

  • روشن مغل

برفانی تودے تلے دبنے والوں کی تلاش کا عمل جاری ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی وادیٔ نیلم میں تودا گرنے کا دوسرا بڑا واقعہ پیش آیا ہے جس میں مزید نو افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

وادی نیلم سے وائس آف امریکہ کے نمائندے روشن مغل کے مطابق بالائی گاؤں چکناڑ میں متعدد گھر برفانی تودے کی زد میں آئے ہیں۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے قائم ادارے 'اسٹیٹ ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی' (ایس ڈی ایم اے) کے سیکریٹری شاہد محی الدین کے مطابق ڈھکی اور چکناڑ میں برفانی تودے کے نیچے دبنے والوں میں سے نو افراد کی لاشیں اور تین افراد کو زخمی حالت میں نکال لیا گیا ہے۔

تاہم حکام کے مطابق مزید ہلاکتوں کا خدشہ بھی موجود ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق چکناڑ کے علاوہ ڈھکی اور دیگر چھوٹے دیہات برفانی تودے تلے دب گئے ہیں۔

ایس ڈی ایم اے کے سیکریٹری شاہد محی الدین کا کہنا ہے کہ چکناڑ میں اب تک امدادی ٹیمیں نہیں پہنچ سکی ہیں اور مقامی افراد کا کہنا ہے کہ وہاں تین دیہات برفانی تودے کی زد میں آئے ہیں۔

پاکستانی کشمیر میں تودے گرنے کے بعد مقامی شہری شدید مشکلات کا شکار ہیں۔

شاہد محی الدین کے مطابق ڈھکی اور چکناڑ، کیل سے بھی مزید آگے کے علاقے ہیں جہاں مزید اموات کا خدشہ ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں گزشتہ تین روز کے دوران بارشوں اور تودے گرنے کے واقعات میں ہلاکتوں کی تعداد 100 تک پہنچ گئی ہے اور اب تک 90 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

پاکستان کے قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے 'نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی' (این ڈی ایم اے) کے مطابق سب سے زیادہ ہلاکتیں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہوئیں، جہاں کل تک 76 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ بلوچستان میں بارشوں کی وجہ سے 20، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں بھی دو دو افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

این ڈی ایم اے کے مطابق متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں جس میں فوج کے رضا کار بھی حصہ لے رہے ہیں۔

تودے تلے دب کر ہلاک ہونے والے افراد کی تدفین کا عمل جاری ہے۔

وزیرِ اعظم عمران خان کا دورۂ کشمیر

وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان نے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے صدر مقام مظفر آباد میں زیرِ علاج برفانی تودے کی زد میں آ کر زخمی ہونے والوں کی عیادت کی ہے۔

پاکستانی کشمیر کے چیف سیکرٹری مطہر نیاز رانا نے وزیر اعظم پاکستان کو وادیٔ نیلم میں حالیہ بارشوں اور برف باری سے ہونے والے نقصانات اور ریسکیو آپریشن کے حوالے سے بریفنگ دی۔

اس موقع پر پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے صدر سردار مسعود خان، وزیرِ اعظم راجہ فاروق حیدر، اسپیکر قانون ساز اسمبلی برائے پاکستانی کشمیر شاہ غلام قادر اور پاکستان کے وزیر برائے امور کشمیر علی امین گنڈا پور بھی موجود تھے۔

چیف سیکرٹری نے بتایا کہ پہلے مرحلے میں جاں بحق ہونے والوں کو ایک لاکھ 50 ہزار روپے، معذور ہونے والوں کو 75 ہزار اور زخمی ہونے والوں کو 50 ہزار روپے معاوضہ ادا کیا جائے گا۔

تباہ ہونے والے گھروں کے لیے فی کس ایک لاکھ روپے، دکانوں کے لیے 50 ہزار اور گاڑیوں کے لیے ایک لاکھ روپے معاوضہ دیا جائے گا۔ پاکستانی کشمیر کی حکومت نے متاثرین کو معاوضوں کی ادائیگی کے لیے فنڈز جاری کر دیے ہیں۔

وزیرِ اعظم عمران خان کے دورۂ مظفر آباد کے موقع پر پاکستانی کشمیر کے حکام بھی ان کے ساتھ موجود ہیں۔

مسلسل برف باری تودے گرنے کا سبب بنی

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے بالائی علاقوں میں دسمبر جنوری اور فروری میں معمول سے زیادہ برف باری کے نتیجے میں برفانی گلیشئرز اور تودے عموماً مارچ میں گرتے ہیں۔ لیکن اس سال وادیٔ نیلم میں نومبر کے مہینے میں بھی برف باری ہوئی اور جنوری میں ہی برفانی تودے اور گلیشئر گرنے شروع ہو گئے ہیں۔

تودوں سے بچاؤ کے لیے وادی کے لوگ پہلے سے تیار نہ تھے۔ لہٰذا اسی لیے نقصانات کی شرح بھی زیادہ ہے۔

پاکستانی کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر شاہ غلام قادر کہتے ہیں کہ اچانک خشک برف باری شروع ہو گئی جو جم نہیں سکی۔ ان کے بقول جو برف باری بارش کے ساتھ ہو، وہ جمتی ہے۔ خشک برف باری سے تودے اور گلیشئر کھسکنے شروع ہو گئے۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے تحفظِ ماحولیات سے متعلق ادارے کے ایک عہدے دار اور وادی نیلم کے رہائشی سردار رفیق نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وادیٔ نیلم میں برفانی تودے گرنے کی وجہ دو تین روز تک ہونے والی مسلسل برف باری ہے۔

انہوں نے کہا کہ 36 گھنٹے مسلسل برف باری جاری رہنے سے برف کی بڑی مقدار جمع ہو گئی جو حجم بڑھنے کی وجہ سے سرکنا شروع ہو گئی۔

انہوں نے بتایا کہ کئی دہائیوں بعد اتنے کم وقت میں اتنی زیادہ برف گری ہے جو تودوں کی شکل میں نیچے آ رہی ہے۔

سردار رفیق نے بتایا کہ گزشتہ برس اس سے زیادہ برف باری ہوئی تھی۔ لیکن وقفے وقفے سے ہونے کی وجہ سے برف جمتی رہی اور تودے نہیں گرے۔

وادیٔ نیلم میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے ادارہ برائے ہنگامی صورت حال (ایس ڈی ایم اے) کے عہدے دار اختر ایوب نے بتایا کہ اس سال خلاف معمول نومبر کے مہینے میں برف باری ہوئی جس سے درخت ٹوٹے اور خلافِ توقع تودے اور گلیشئر ٹوٹنا شروع ہو گئے۔