پاکستان میں گاڑیوں کے لیے بینکوں سے قرض کا حصول بلند ترین سطح پر، وجہ کیا ہے؟

پاکستان کے مرکزی بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر ملک میں آٹو فائننسگ میں دو کھرب 97 ارب روپے صرف ہو چکے ہیں۔ جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 40 فی صد یعنی 85 ارب روپے زیادہ ہے۔ (فائل فوٹو)

پاکستان میں گزشتہ کئی ماہ سے جہاں گاڑیوں کی تیاری اور فروخت میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، وہیں گاڑیاں خریدنے کے لیے بینکوں سے قرضے لینے (آٹو فنانسنگ) کے شعبے میں تیزی دیکھی گئی ہے۔

پاکستان کے مرکزی بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر ملک میں آٹو فائننسنگ میں دو کھرب 97 ارب روپے صرف ہو چکے ہیں۔ جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 40 فی صد یعنی 85 ارب روپے زیادہ ہے۔

اسی طرح صرف مئی 2021 میں اس مد میں پانچ ارب روپے خرچ کیے گئے جو مئی 2020 کے مقابلے میں دو فی صد زیادہ تھے۔

کاروبار کی خبریں دینے والے مقامی انگریزی اخبار ’بزنس ریکارڈر‘ کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک میں ایک لاکھ 20 ہزار گاڑیاں بینکوں سے قرضہ لے کر چلائی جا رہی ہیں۔ رواں برس اپریل تک 12 ارب روپے کے آٹو لونز (یعنی گاڑیوں کے لیے قرضے) جاری کیے جا چکے ہیں۔ یوں بینکوں کے کُل جاری کیے گئے قرضوں کا 43 فی صد تک آٹو فائننس کی مد میں ہیں۔

کرونا میں سڑکوں سے سفر میں اضافہ

آٹو سیکٹر کے ماہرین کے مطابق آٹو لونز میں اس طرح کی نمو پہلی بار دیکھنے میں آ رہی ہے۔ معیشت کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق کرنے والے ’اسپیکٹرم سیکیورٹیز‘ میں ہیڈ آف ریسرچ عبد العظیم کے مطابق آٹو سیکٹر میں قرضوں کے حصول میں موجودہ تیزی ظاہر کرتی ہے کہ ملک میں کرونا وائرس کے بعد شاہراہوں کے ذریعے سفر کرنے کا رحجان بڑھ گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لوگ اپنی گاڑیوں پر سفر کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ہی پاکستان میں کافی حد تک روڈ انفراسٹرکچر میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ اسی طرح تیل کی قیمتوں میں بھی کسی حد تک استحکام رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں فی کس آمدنی میں اضافے سے بھی لوگوں میں نئی گاڑیاں خریدنے کا رحجان بڑھا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے بھی کثیر زرِ مبادلہ گزشتہ مالی سال کے دوران بھیجا ہے جس سے لوگوں کی توجہ اس جانب بڑھی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کا مستقبل کیا ہے؟

عبد العظیم کے مطابق کرونا سے متاثر ہونے کے بعد معاشی سرگرمیاں بھی بڑھ چکی ہیں۔ اور عوام کی طرح بینکوں کے پاس بھی کثیر رقم موجود ہے جس کی وجہ سے بینک بڑی تعداد میں گاڑیاں فنانس کر رہے ہیں۔

گاڑیوں کے لیے قرضوں میں اسلامی بینکنگ کی کارکردگی کیوں بہتر ہے؟

اس سوال پر کہ اس شعبے میں اسلامی بینکنگ کرنے والے بینکوں کی کارکردگی کیوں بہتر ہے؟ عبد العظیم کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں اس کی وجہ لوگوں کا اسلامی بینکاری پر اعتماد ہو سکتا ہے۔ جب کہ کئی بینک اس بارے میں بہتر پیشکش بھی کر رہے ہیں جس میں آسان طریقۂ کار، قرض کی واپسی کی مدت میں اضافہ، کم ڈاؤن پیمنٹ، ادائیگی کے پلان میں تبدیلی کے بہتر آپشن، بیمہ اور کسی نقصان کی صورت میں بینک کی انشورنس، دستاویزات کی تیاری میں آسانی جیسے عوامل شامل ہیں۔

عبدالعظیم کے مطابق اس سے قبل پاکستان میں بینکوں سے قرض لے کر گاڑیوں کے حصول کی ایسی طلب سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی دیکھی گئی تھی۔ بینکوں کے پاس لکیوڈیٹی زیادہ ہونے کی وجہ سے بڑی تعداد میں گاڑیاں فائننس کی گئی تھیں۔ اس میں یہ بھی خیال نہیں رکھا گیا تھا کہ قرض دار یہ قرض واپس کرنے کے قابل بھی ہیں یا نہیں۔ نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگ دیوالیہ ہو گئے تھے۔ تاہم عمومی طور پر اسلامی بینک ایسا کرنے سے گریز کرتے ہیں اور وہ قرض دار کی حیثیت، آمدن اور اس کی واپسی کی صلاحیت کو دیکھ کر قرض جاری کر رہے ہیں ٓ جس سے انہیں وقت کے ساتھ اس شعبے میں ممتاز حیثیت ملی ہے۔

’کار ساز کمپنیوں کو قیمتیں کم کرنے پر مجبور کیا جائے‘

دوسری جانب ’آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن‘ کے صدر ایچ ایم شہزاد کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں سال کرونا وبا کے سائے کم ہونے کے بعد گاڑیوں کی تیاری اور فروخت میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ جب کہ حکومت نے بھی موجودہ مالی سال کے بجٹ میں چھوٹی گاڑیوں کے لیے ٹیکس میں خاطر خواہ کمی کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے اس مقصد کے لیے کار ساز کمپنیوں کو اپنا ریٹ کم کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ حالاں کہ کار تیار کرنے والی مقامی کمپنیوں نے امریکی ڈالر کا ریٹ 169 روپے تک جانے پر کاروں کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ کیا تھا۔ روپے کی قدر بڑھنے کے باوجود بھی یہ فائدہ عوام کو منتقل نہیں کیا گیا۔ اگر ایسا کیا جاتا تو مزید لوگ نئی کاریں خریدنے کو تیار ہوتے اور اس کے لیے بہت سے لوگ بینکوں سے بھی قرض لیتے۔

بعض ماہرین کے خیال میں حالیہ بجٹ کی منظوری کے بعد چھوٹی گاڑیوں پر ٹیکس میں کمی سے آٹو فائننسنگ کے میدان میں زیادہ سرمایہ کاری کا امکان ہے۔

بجٹ میں 850 سی سی درآمد کی گئی گاڑیوں کی تیاری کے لیے درآمد کیے جانے والے اسپیئر پارٹس پر ڈیوٹی 30 فی صد سے کم کر کے 15 فی صد کی گئی ہے۔ جب کہ مقامی گاڑیوں کی تیاری کے لیے درآمد کیے جانے والے اسپیئر پارٹس پر ڈیوٹی 46 فی صد سے کم کرکے 30 فی صد کی گئی ہے۔ اسی طرح 850 سی سی تک گاڑیوں پر سات فی صد اضافی ڈیوٹی کو بھی دو سال کے لیے ختم کر دیا گیا ہے۔

مبصرین کے مطابق گاڑیوں کی قیمتوں میں اب پانچ فی صد تک کمی کا امکان ہے۔ اس سے لوگوں میں آٹو لونز کے لیے آنے والے برسوں میں مزید اضافے کا رجحان برقرار رہنے کی توقع ہے۔

گاڑیوں کی تیاری اور فروخت میں اضافہ

اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سال 21-2020 میں گاڑیوں کی تیاری میں 37 فی صد سے زائد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جب کہ اس قبل 20-2019 میں 43 فی صد کمی دیکھنے میں آئی تھی۔ ان میں جیپ، کاریں، موٹر سائیکل، ٹریکٹرز، ٹرک اور بسیں شامل ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان میں ملنے والی گاڑیاں کتنی محفوظ ہیں؟

اسٹیٹ بینک کی دوسری سہ ماہی رپورٹ میں بھی اس امر کی جانب نشان دہی کی گئی تھی کہ شرح سود کم ہونے سے گاڑیوں کی مالی اعانت میں اضافے میں مدد ملی۔ شرح تبادلہ کے استحکام نے آٹو سیکٹر کی پیداوار کو بھی بہتر کیا ہے۔

آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں جولائی 2020 سے مئی 2021 کے دوران ایک لاکھ 39 ہزار 613 نئی گاڑیاں تیار ہو کر فروخت ہوئیں۔ جب کہ ایک برس قبل یہ تعداد 89 ہزار 130 رہی تھی۔

اس سوال پر کہ کیا گاڑیوں کی تیاری اور فروخت کی تعداد بڑھنے سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ملکی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے؟ تو عبد العظیم کا کہنا تھا کہ گاڑیوں کی تیاری کا عمل لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں شامل ہے۔ اور اس میں اضافہ معیشت کے ایک مثبت پہلو کی جانب نشان دہی تو ضرور کرتا ہے لیکن معیشت کی مکمل تصویر صرف گاڑیوں کی فروخت بڑھنے سے نہیں دیکھی جا سکتی۔ اس لیے محض گاڑیوں کی فروخت بڑھنے سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہو گئی۔