عورتوں کا عالمی دن 8 مارچ سر پر پہنچ گیا ہے اور ایسے میں مختلف غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے عورت مارچ کی تیاریاں زور شور سے جاری ہیں اور اس کی گونج سوشل میڈیا پر بھی نظر آ رہی ہے۔
پچھلے برس کی طرح اس برس بھی خواتین #WhyIMarch یعنی میں مارچ کیوں کر رہی ہوں کے ہیش ٹیگ کے ساتھ اپنے تجربات ٹویٹر پر پوسٹ کر رہی ہیں اور وہ وجوہات بتا رہی ہیں جن کی وجہ سے وہ عورت مارچ کو ضروری سمجھتی ہیں۔
سوشیالوجی کی پروفیسر ندا کرمانی نے لکھا کہ میں اس لیے مارچ کر رہی ہوں کیونکہ لڑکیوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ اونچا ہنس نہیں سکتی، کیونکہ لڑکوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ رو نہیں سکتے، کیونکہ عورتوں کو سکھایا جاتا ہے کہ ان کی زندگی کا واحد مقصد کسی کی بیوی بننا ہے۔ کیونکہ جو مرد اپنے خاندانوں کی کفالت نہیں کر پاتے انہیں ناکام کہا جاتا ہے۔
I march because girls are taught to not laugh out loud.I march because boys are told that they shouldn’t cry.I march because women are told they’re main goal in life is to be a wife.I march because men who can’t support their families are told they’re failures. #WhyIMarch
— Nida Kirmani (@nidkirm) February 26, 2020
نگہت داد نے کہا کہ میں اس لیے مارچ کر رہی ہوں کیونکہ آج بھی پاکستان میں عورتوں کو وراثت لینے کے لیے قانونی جنگ لڑنی پڑتی ہے۔ میری ماں، میری نانی، اور ان کی ماؤں کے نام پر کوئی زمین نہیں تھی جب کہ وہ روز بارہ بارہ گھنٹے زرعی زمینوں پر کام کرتی تھیں۔
#WhyIMarch because women in Pakistan still have to fight with male members to get “Islamic” share in inheritance. My mother, grand mothers & great grand mothers never had any agricultural land in their names despite working 12 hours everyday in fields all their lives. #AuratMarch
— Nighat Dad (@nighatdad) February 26, 2020
ایک صارف نے لکھا کہ میں اس لیے مارچ کر رہی ہوں کیونکہ میرے والد، میری والدہ پر تشدد کرتے تھے اور بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے بالآخر انہوں نے میری والدہ کو گھر سے نکال دیا۔ میں ان ہزاروں عورتوں کے لیے مارچ کر رہی ہوں جو اپنے پارٹنر یا والدین کے ہاتھوں اذیتیں سہتی ہیں۔ میں ایسی دنیا چاہتی ہوں جہاں میری وقعت کی وجہ جنس نہ ہو۔
#WhyIMarch bec my father beat my mother for years after finally leaving her due to her inability to give him sons. I march for the thousands of women and girls falling into the hands of abusive parents/partners. I march for a world where my genitals don’t decide my worth
— bears beets battlestar galactica (@sooploops) February 26, 2020
ایک اور صارف نے لکھا کہ میں اس لیے مارچ کر رہی ہوں کیونکہ جب میں 15 برس کی تھی تو ایک ادھیڑ عمر شخص نے میرے سکول کی عمارت کے باہر مجھ سے دست درازی کی ۔ جب میں نے اپنی ماں کو بتایا تو انہوں نے الٹا مجھے اکیلے نکلنے سے منع کر دیا۔
انہوں نے لکھا کہ میں اس لیے مارچ کر رہی ہوں تاکہ ہماری بیٹیوں کو ایسے حالات سے نہ گزرنا پڑے۔ ان کے لیے امکانات بند نہ ہوں۔ وہ سڑکوں پر کسی ڈر کے بغیر سفر کر سکیں۔
#WhyIMarch is because when i was 15, a middle aged man groped me and asked me to remove my dupatta so he could take a better look right outside my school building and when i told my mother, she banned me from going anywhere alone and made me cover up even more #AuratMarch2020
— n (@klagt3) February 25, 2020
ایک اور صارف نے لکھا کہ میرے گھر کام کرنے والی خاتون کے 12 بچے ہیں جن کی عمریں 19 برس سے چھ ماہ تک کی ہیں اور ڈاکٹر نے اسے کہا ہے کہ تم مزید بچے نہ کرو ورنہ مر جاؤ گی لیکن اس خاتون کا کہنا ہے کہ اس کا مرد نہیں مانتا۔
#WhyIMarch our household help has 12 children b/w the ages of 19yrs and 6 months. She%27s Anemic, has had 3 miscarriages, 2 stillbirths. When the doctor told her to stop because she%27ll die and get an *operation* she said "nahin Bibi, mera Mard nahin manta"MERA JISM MERI MARZI
— Z. (@curlyandfluffy1) February 26, 2020
صحافی اور ایکٹوسٹ نایاب جان گوہر نے کہا کہ وہ اس لیے مارچ کر رہی ہیں کیونکہ خواتین کے تعلیم، صحت اور معاشی حقوق محفوظ نہیں ہیں اور ہمیں ہمارا آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ جب ہمارے حقوق خطرے میں ہوں تو ہم احتجاج کریں۔
We march because our rights to education, healthcare and economic empowerment are not being protected- and the constitution allows us to protest when our rights are under threat. #AuratMarch2020 pic.twitter.com/ByLyrFOa3M
— Nayab Gohar Jan (@NayabGJan) February 26, 2020
صحافی نزرانہ یوسف زئی نے لکھا کہ ہمارے گھر میں کام کرنے والی خاتون کی بیٹی کی آواز بہت خوبصورت تھی۔ وہ میرے لیے گاتی تھی۔ وہ بس 14 برس کی تھی جب اسے تمام پشتو ٹپے یاد تھے۔ اسے اس کے باپ نے اس لیے قتل کر دیا کیوں کہ اس کے بھائی نے اس کا ریپ کیا تھا۔ اس کا بھائی زندہ ہے اور آزاد بھی۔
I lovvved her melodious voice. She would always sing to me. She was only 14 but knew well how to sing Pashto tappay. She was killed by her father bcs she was raped by her own brother. Brother is free & alive.She was daughter of a poor woman who worked at ours. #WhyIMarch
— Nazrana Yousufzai ☕️☕️ (@NazranaYusufzai) February 26, 2020
صحافی ایلیا زہرہ نے لکھا کہ میں مردانہ رعونت کا نشانہ بننے والوں کے لیے مارچ کر رہی ہوں۔ میں ان عورتوں کے لیے مارچ کر رہی ہوں جو گول روٹی نہ بنانے کی وجہ سے مار دی گئیں۔ میں ان لڑکیوں کے لیے مارچ کر رہی ہوں جن کی زبردستی شادی کر دی جاتی ہے۔
#WhyIMarch I march for the victims of toxic masculinity, the women who were killed because the rotis they made were not round enough.I march for women who’re deprived of their rightful share in inheritance.I march for young girls who’re forcibly married. #AuratMarch2020
— Ailia Zehra (@AiliaZehra) February 25, 2020
صحافی صباحت زکریا نے لکھا کہ میں اس لیے مارچ کر رہی ہوں کیونکہ میں ایسی بہت سی خواتین کو جانتی ہوں جنہوں نے عورت مخالف روایات کو اپنا لیا ہے۔ میں مردوں کے ساتھ ساتھ ان کے ضمیر کو بھی جگانا چاہتی ہوں۔ اور اس لیے بھی کہ میں ایسی بہت سی خواتین کو جانتی ہوں جو اس مارچ کا حصہ بننا چاہتی ہیں مگر اپنے خاندان، سماج اور پرتشدد مردوں یا مذہبی جنونیوں سے ڈرتی ہیں اور وہ باہر بیٹھ کر ہمارا ساتھ دے رہی ہیں۔ میری امید ہے کہ ایک دن وہ بھی ہمارے ساتھ مارچ کریں۔
Because fortunately I know dozens of women who want to march.But many of them are scared — of their families, of society, of violent men, of religious extremists. They watch and cheer us on from the sidelines and I hope one day they will also join us. #WhyIMarch #AuratMarch2020
— Sabahat Zakariya (@sabizak) February 26, 2020