عورتوں کا عالمی دن 8 مارچ سر پر پہنچ گیا ہے اور ایسے میں مختلف غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے عورت مارچ کی تیاریاں زور شور سے جاری ہیں اور اس کی گونج سوشل میڈیا پر بھی نظر آ رہی ہے۔
پچھلے برس کی طرح اس برس بھی خواتین #WhyIMarch یعنی میں مارچ کیوں کر رہی ہوں کے ہیش ٹیگ کے ساتھ اپنے تجربات ٹویٹر پر پوسٹ کر رہی ہیں اور وہ وجوہات بتا رہی ہیں جن کی وجہ سے وہ عورت مارچ کو ضروری سمجھتی ہیں۔
سوشیالوجی کی پروفیسر ندا کرمانی نے لکھا کہ میں اس لیے مارچ کر رہی ہوں کیونکہ لڑکیوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ اونچا ہنس نہیں سکتی، کیونکہ لڑکوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ رو نہیں سکتے، کیونکہ عورتوں کو سکھایا جاتا ہے کہ ان کی زندگی کا واحد مقصد کسی کی بیوی بننا ہے۔ کیونکہ جو مرد اپنے خاندانوں کی کفالت نہیں کر پاتے انہیں ناکام کہا جاتا ہے۔
نگہت داد نے کہا کہ میں اس لیے مارچ کر رہی ہوں کیونکہ آج بھی پاکستان میں عورتوں کو وراثت لینے کے لیے قانونی جنگ لڑنی پڑتی ہے۔ میری ماں، میری نانی، اور ان کی ماؤں کے نام پر کوئی زمین نہیں تھی جب کہ وہ روز بارہ بارہ گھنٹے زرعی زمینوں پر کام کرتی تھیں۔
ایک صارف نے لکھا کہ میں اس لیے مارچ کر رہی ہوں کیونکہ میرے والد، میری والدہ پر تشدد کرتے تھے اور بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے بالآخر انہوں نے میری والدہ کو گھر سے نکال دیا۔ میں ان ہزاروں عورتوں کے لیے مارچ کر رہی ہوں جو اپنے پارٹنر یا والدین کے ہاتھوں اذیتیں سہتی ہیں۔ میں ایسی دنیا چاہتی ہوں جہاں میری وقعت کی وجہ جنس نہ ہو۔
ایک اور صارف نے لکھا کہ میں اس لیے مارچ کر رہی ہوں کیونکہ جب میں 15 برس کی تھی تو ایک ادھیڑ عمر شخص نے میرے سکول کی عمارت کے باہر مجھ سے دست درازی کی ۔ جب میں نے اپنی ماں کو بتایا تو انہوں نے الٹا مجھے اکیلے نکلنے سے منع کر دیا۔
انہوں نے لکھا کہ میں اس لیے مارچ کر رہی ہوں تاکہ ہماری بیٹیوں کو ایسے حالات سے نہ گزرنا پڑے۔ ان کے لیے امکانات بند نہ ہوں۔ وہ سڑکوں پر کسی ڈر کے بغیر سفر کر سکیں۔
ایک اور صارف نے لکھا کہ میرے گھر کام کرنے والی خاتون کے 12 بچے ہیں جن کی عمریں 19 برس سے چھ ماہ تک کی ہیں اور ڈاکٹر نے اسے کہا ہے کہ تم مزید بچے نہ کرو ورنہ مر جاؤ گی لیکن اس خاتون کا کہنا ہے کہ اس کا مرد نہیں مانتا۔
صحافی اور ایکٹوسٹ نایاب جان گوہر نے کہا کہ وہ اس لیے مارچ کر رہی ہیں کیونکہ خواتین کے تعلیم، صحت اور معاشی حقوق محفوظ نہیں ہیں اور ہمیں ہمارا آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ جب ہمارے حقوق خطرے میں ہوں تو ہم احتجاج کریں۔
صحافی نزرانہ یوسف زئی نے لکھا کہ ہمارے گھر میں کام کرنے والی خاتون کی بیٹی کی آواز بہت خوبصورت تھی۔ وہ میرے لیے گاتی تھی۔ وہ بس 14 برس کی تھی جب اسے تمام پشتو ٹپے یاد تھے۔ اسے اس کے باپ نے اس لیے قتل کر دیا کیوں کہ اس کے بھائی نے اس کا ریپ کیا تھا۔ اس کا بھائی زندہ ہے اور آزاد بھی۔
صحافی ایلیا زہرہ نے لکھا کہ میں مردانہ رعونت کا نشانہ بننے والوں کے لیے مارچ کر رہی ہوں۔ میں ان عورتوں کے لیے مارچ کر رہی ہوں جو گول روٹی نہ بنانے کی وجہ سے مار دی گئیں۔ میں ان لڑکیوں کے لیے مارچ کر رہی ہوں جن کی زبردستی شادی کر دی جاتی ہے۔
صحافی صباحت زکریا نے لکھا کہ میں اس لیے مارچ کر رہی ہوں کیونکہ میں ایسی بہت سی خواتین کو جانتی ہوں جنہوں نے عورت مخالف روایات کو اپنا لیا ہے۔ میں مردوں کے ساتھ ساتھ ان کے ضمیر کو بھی جگانا چاہتی ہوں۔ اور اس لیے بھی کہ میں ایسی بہت سی خواتین کو جانتی ہوں جو اس مارچ کا حصہ بننا چاہتی ہیں مگر اپنے خاندان، سماج اور پرتشدد مردوں یا مذہبی جنونیوں سے ڈرتی ہیں اور وہ باہر بیٹھ کر ہمارا ساتھ دے رہی ہیں۔ میری امید ہے کہ ایک دن وہ بھی ہمارے ساتھ مارچ کریں۔