’’گرفتاری کے وقت اتنی زور سے دروازہ توڑا گیا جیسے کوئی بم دھماکہ ہوگیا ہو۔ مجھے ہتھکڑیاں لگا کر لے جایا گیا۔ اردگرد کی گلیوں میں انٹیلی جنس کے لوگ تھے ،میری گرفتاری کی فوٹیج بن رہی تھی اور مجھے یوں لگ رہا تھا کہ ہالی وڈ کی کوئی فلم بن رہی ہے اور میں بہت بڑا دہشت گردہوں۔‘‘
یہ الفاظ ہیں لاہور سے مبینہ طور پر سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ٹیکس معاملات سے متعلق خبر دینے والے صحافی شاہد اسلم کے جنہیں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے رواں سال جنوری میں مقدمہ قائم کرکے ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ اس وقت بھی ایف آئی اے کے درج کیے گئے مقدمے میں ضمانت پر ہیں۔
’’مجھ پر گولی چلائی گئی لیکن مجھے اس سے خوف محسوس نہیں ہوا لیکن جب بات بچوں پر آئی تو میرے لیے یہ ہی سب سے مشکل وقت تھا۔ مجھ پر گولی چلانے والے مجرموں کو فرانس اور جرمنی سے رقوم بھجوائی گئی لیکن وہ آج تک گرفتار نہیں ہوئے۔‘‘
یہ کہنا ہے سینئر صحافی ابصار عالم کا جن کے مطابق آزادیٔ صحافت صرف ایک نعرہ بن کر رہ گئی ہے کیوں کہ صحافیوں کو جان و مال اور روزگار کسی چیز کا تحفظ حاصل ہے۔
ایک دو نہیں بلکہ پاکستان میں کام کرنے والے کئی صحافیوں کی یہی کہانی ہے۔ صحافیوں کی آزادی اور تحفظ کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم ’فریڈیم نیٹ ورک‘ کی حالیہ رپورٹ سے اس بارے میں کئی حقائق سامنے آئے ہیں۔
صحافیوں پر ہونے والے حملوں میں 60 فی صد اضافہ
فریڈم نیٹ ورک کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران صحافیوں، میڈیا پروفیشنلز اور آرگنائزیشنز کے خلاف دھمکیوں اور حملوں کے کم از کم 140 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں اور ایسے واقعات میں سالانہ بنیادوں پر 60 فی صد اضافہ ہواہے۔
SEE ALSO: امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی کی رپورٹ، پاکستان اور بھارت کی صورتِ حال پر تشویشپاکستان صحافیوں کے لیے ایک خطرناک ملک سمجھا جاتا ہے اور 2022 میں شائع ہوانے والے ’رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ کے میڈیا فریڈیم انڈیکس کے مطابق پاکستان آزادی صحافت کے اعتبار سے دنیا کے 180 ممالک میں 157 نمبر پر تھا۔ تاہم 2023 کی رپورٹ کے مطابق اب پاکستان اس انڈیکس میں سات درجے ترقی کے بعد 150 ویں نمبر پر ہے۔
صحافی شاہد اسلم نے کا کہنا ہے کہ آزادیٔ صحافت اور صحافیوں کے تحفظ کی بات تو کی جاتی ہے لیکن اس پر عمل درآمد کسی دور میں نہیں ہورہا ہے۔ عمران خان کے دور حکومت میں الزام لگایا جاتا ہے کہ ریاستی ادارے صحافیوں کے خلاف کارروائیوں میں ملوث تھے لیکن موجودہ جمہوری دور میں میرے خلاف ایک ایسا کیس بنایا گیا جس میں مجھ سے پوچھا تک نہیں گیا کہ آیا اس میں میرا قصور ہے بھی یا نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کیس میں مجھے سمن بھیج کر بلوایا جاسکتا تھا لیکن مجھے ہتھکڑیاں لگا کر گرفتار کیا گیا اور اڈیالہ جیل کی سیر کروائی گئی۔ ان کے بقول: ’’ایسے حالات میں کون سی آزادیٔ صحافت؟‘‘
شاہد اسلم کا کہنا تھا کہ صحافی قانون سے بالا تر نہیں لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کی حکم کی روشنی میں بنائے گئے ایف آئی اے کے اپنے رولز کے مطابق صحافیوں کو کسی بھی معاملے پر پہلے نوٹس جاری کیا جائے گا اور اس کے بعد ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ لیکن مجھے نہ صرف گرفتار کیا گیا بلکہ اب تک اس کیس میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ تین مئی کو جب عالمی یومِ صحافت منایا جارہا ہوگا اس وقت میں عدالت میں پیشی کے لیے جاؤں گا۔
ابصار عالم کہتے ہیں کہ ماضی کے مقابلہ میں اس دور میں بولنے کی آزادی دی گئی ہے۔ مجھ سمیت بہت سے اینکرز اور صحافیوں کے ٹی وی پر آنے پر پابندی لگائی گئی تھی جو موجودہ دور میں ہٹا دی گئی لیکن اب بھی آزادیٔ اظہار کی صورتِ حال ویسی نہیں جیسی ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ابھی بھی صحافیوں پر حملے ہورہے ہیں اوران پر جسمانی یا معاشی حملے کیے جاتے ہیں۔ کسی صحافی کو نوکری سے نکلوا دینا اور کہیں کام نہ کرنے دینا اس کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے کیوں کہ اس وجہ سے صحافی کے ساتھ ساتھ اس سے منسلک کئی افراد کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔
صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ ’خطرناک‘ شہر
پاکستان پریس فریڈم رپورٹ کے مطابق صحافت کے لیے سب سے زیادہ خطرے والا شہر اسلام آباد ہے۔
رپورٹ کے مطابق آزادیٔ صحافت کی خلاف ورزیوں میں سے56 فی صد وفاقی دار الحکومت میں ہوئی ہیں۔
SEE ALSO: پاکستان میں جبری گمشدگیوں اور سیاسی کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں اضافہ ہوا: رپورٹ
تین مئی کو ورلڈ پریس فریڈم ڈے سے قبل جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ مہینوں کے دوران ملک میں میڈیا کے لیے ماحول خطرناک اور زیادہ پُرتشدد ہو گیا ہے۔ مئی 2022 سے مارچ 2023 کے درمیان حملوں کی تعداد 63 فی صد بڑھ کر 140 ہو گئی جن کی تعداد سال 22-2021 میں 86 تھی۔
رپورٹ کے مطابق ایک سال کے دوران پاکستان میں کم از کم پانچ صحافیوں کے قتل کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
صحافیوں کے خلاف تشدد میں اضافہ کیوں؟
فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کے خلاف تشدد میں اضافہ پریشان کن ہے اور فوری توجہ کا متقاضی ہے۔
اقبال خٹک نے کہا کہ صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافے کی بنیادی وجہ پالیسی فریم ورک ہے جو ریاستی اداروں اور حکام کی طرف سے بنایا گیا ہے۔ صحافیوں کے خلاف حملوں میں اداروں سمیت سیاسی جماعتیں بھی شامل رہی ہیں۔ یہ وہ پالیسی ہے جس کے تحت صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس طرزِ عمل پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں پر حملے سے اہم معلومات تک رسائی میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔ ملک میں جاری موجودہ سیاسی اور معاشی بحران کے دوران یہ صورتِ حال مزید پریشان کن ہے۔
اقبال خٹک کا کہنا تھا کہ پاکستان 2021 میں صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے قانون سازی کرنے والا ایشیا کا پہلا ملک بنا لیکن ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی وفاق اور سندھ میں صحافیوں کے تحفظ کے قوانین کسی ایک صحافی کے لیے بھی مددگار ثابت نہیں ہوئے۔
پاکستان میں گزشتہ 11 مہینوں میں صحافیوں کے خلاف 140 حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر مہینے میں 13 کیسز رپورٹ ہوتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں آزادی صحافت کی خلاف ورزیاں تقریباً ہر دوسرے دن ہورہی ہیں۔
SEE ALSO: پاکستانی صحافی کی تلخ یاداشتوں پر شائع ہونے والی کامک بکقتل ہونے والی صحافی
فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ میں رواں سال جان کی بازی ہارنے والےپانچ صحافیوں کی فہرست دی گئی ہے۔ جن میں چارسدہ سے روزنامہ ’ایکسپریس‘ کے افتخار احمد ،سرائیکی اخبار کے لیے کام کرنے والے راجن پور کے اشتیاق سودھیرو، چینل فائیو لاہور کے لیے کام کرنے والی صدف نعیم اور خیرپور میں ’مہران‘ ٹی وی کے لیے کام کرنے والے نریش کمار کے علاوہ ارشد شریف کا نام بھی شامل ہے۔ صحافی ارشد شریف اگرچہ پاکستان میں قتل نہیں ہوئے تاہم ان کا نام بھی اس رپورٹ میں شامل کیاگیا ہے۔
رواں سال رپورٹ کے مطابق خواتین صحافیوں کے خلاف آٹھ خلاف ورزیاں کی گئیں جن میں انہیں ہراساں کرنے سمیت دھمکانے کے کیسز بھی شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جن صحافیوں کے خلاف سب سے زیادہ حملے ہوئے وہ ٹی وی سے تعلق رکھنے والے تھے جن کے خلاف 69 فی صد حملے ہوئے جب کہ پرنٹ میڈیا کے خلاف 19 فی صد اور 11 فی صد آن لائن صحافیوں کے خلاف حملے ہوئے۔
جہاں پانچ صحافی قتل ہوئے وہیں 10 صحافیوں پر قاتلانہ حملے ہوئے جن میں وہ بچ گئے جب کہ نو صحافیوں کو قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ 51 صحافیوں کو جسمانی حملوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں وہ زخمی ہوئے جب کہ سات صحافی گرفتار اور چار صحافیوں کو ان کے کام کی وجہ سے اغوا بھی کیا گیا۔