سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو ٹیپ لیک کرنے والے سینئر صحافی احمد نورانی کی اہلیہ اور خاتون صحافی عنبرین فاطمہ کی گاڑی پر لاہور میں نامعلوم شخص نے حملہ کیا ہے۔ لاہور پولیس نے مقدمہ درج کرکے نامعلوم افراد کے خلاف تفتیش شروع کردی ہے۔
عنبرین فاطمہ کی طرف سے درج کروائی جانے والی ایف آئی آر میں کہا گیا کہ وہ گاڑی پر بچوں کے ہمراہ گھر سے نکلیں اور ساتھ والی گلی میں پہنچیں ''تو اس کے ساتھ ملحقہ تنگ گلی سے کوئی نامعلوم شخص تیزی سے گاڑی کی طرف پہنچا اور مجھ پر حملہ کرنے کی نیت سے گاڑی کی ونڈ سکرین پر آہنی چیز سے تین چار وار کیے اور ایسا کرتے ہی وہ نامعلوم شخص جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتے ہوئے فرار ہو گیا''۔
عنبرین فاطمہ نے، جو روزنامہ نوائے وقت سے منسلک ہیں، کہا ہے کہ ان کی کسی سے کسی قسم کی کوئی رنجش نہیں ہے، ''لیکن مجھ پر حملہ ہوا، نامعلوم شخص کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اور تحفظ فراہم کیا جائے''۔
پنجاب پولیس کی طرف سے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ تھانہ غازی آباد کی حدود میں گزشتہ رات یہ واقعہ پیش آیا تھا جس میں خاتون کی گاڑی پر نامعلوم شخص نے آہنی چیز سے حملہ کیا جس سے گاڑی کی سکرین ٹوٹی اور نقصان پہنچا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ پولیس کو 15 ریسکیو پر کوئی اطلاع نہیں ملی۔ تاہم، جب خاتون گاڑی لیکر تھانہ پہنچی تو فوری کارروائی کی گئی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ نامعلوم شخص کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے، متعلقہ ایس پی کی سربراہی میں ٹیمیں کیمروں کی مدد سے ملزم کی شناخت اور گرفتاری پر کام کر رہی ہیں۔
احمد نورانی کی اہلیہ پر حملے کی خبروں کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف افراد کی طرف سے اس کی مذمت کی جارہی ہے۔ رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے ٹوئیٹ کرتے ہوئے کہا کہ 'ہائبرڈ رجیم صحافت کو جرم کی طرح دیکھ رہی ہے'۔
خاتون صحافی اور اینکر پرسن غریدہ فاروقی نے حملہ کی مزمت کرتے ہوئے کہا کہ اس حملہ سے کچھ دن پہلے حکومت نے صحافیوں کے تحفظ کا بل منظور کیا ہے۔
یاد رہے کہ اسلام آباد میں کام کرنے والے صحافی احمد نورانی پر بھی نامعلوم افراد نے حملہ کیا تھا جس کے ملزمان کا آج تک علم نہیں ہوسکا۔ اس حملے کا الزام قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عائد کیا گیا، لیکن اس وقت حکومت اور مختلف اداروں کی طرف سے اس الزام کی تردید کی گئی تھی۔
احمد نورانی کے حملہ آوروں کے حوالے سے اسلام آباد کے مقامی اخبار میں ایک خبر شائع کی گئی تھی جس کے مطابق احمد نورانی کو مبینہ طور پر کسی لڑکی کے بھائیوں نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا، اس خبر کی اشاعت کے بعد 'لڑکی کے بھائی' کا جملہ بطور استعارہ استعمال کیا جانے لگا۔